پاکستان کے معروف صحافی اور شاعرعارف شفیع

0
57

غریبِ شہر تو فاقے سے مرگیا عارفؔ
امیرِ شہر نے ہیرے سے خود کشی کرلی

عارف شفیق 31 اکتوبر 1956 کو کراچی میں پیدا ہوئے. عملی زندگی میں صحافت سے وابستہ رہے ان کی شاعری کے یہ مجموعے شائع ہوئے: آدھی سوچیں گونگے لفظ (1977) سیپ کے دیپ (1979) سر پھری ہوا (1985) جب زمین پر کوئی دیوار نہ تھی (1987) احتجاج (1988) یقین (1989) میں ہواؤں کا رخ بدل دوں گا (1991) مرا شہر جل رہا ہے(1997)

ان کا کچھ کلام

اس شخص پر بھی شہر کے کتے جھپٹ پڑے
روٹی اٹھا رہا تھا جو کچرے کے ڈھیر سے

عارف شفیق کوئی نہ آگے نکل سکا
میں نے ہر آنیوالے کو خود راستہ دیا

جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کرلی

زندگی خوف کا سفر کیوں ہے
کاش کیوں اگر مگر کیوں ہے

مجھے خدا نے وہ بخشا ہے شاعری کا ہنر
جو خواب دیکھتا ہوں وہ دکھا بھی سکتا ہوں

ہر ایک ہاتھ میں ہتھیار ہوں جہاں عارفؔ
مجھے قلم سے وہاں انقلاب لانا ہے

اور کچھ نہ دے سکا میں اگر ورثے میں
اپنی اولاد کو سچائی تو دے جاؤں گا

عارف شفیق ورثے میں اولاد کے لئے
میں جا رھا ھوں جرآت اظہار چھوڑ کر

اک فتویٰ پھر آیا ہے یہ غاروں سے
کافر کہہ کر مجھ کو مارا جاسکتا ہے

ساری دنیا ہے آشنا مجھ سے
اجنبی اپنے خاندان میں ہوں

آنسو پونچھے، دکھ بانٹے انسانوں کے
میں نے بھی تو ساری عمر عبادت کی

آنکھوں میں جاگ اٹھے ہیں تنہا شجر کے دکھ
گلدان میں جو پھول سجے دیکھتا ہوں میں

موم کی صورت خود ہی پگھل جائے گا اک دن
لفظ محبت لکھ دے تو دل کے پتھر پر

کسی کی آنکھ سے آنسو بھی پونچھ لیتا کبھی
غرور کرتا ہے جو شخص اپنے سجدوں پر

وہی ہیں لفظ پرانے جو لکھ رہے ہیں سب
معانی ان میں مری شاعری اتارتی ہے

اکثر سب کو رستہ دینے والے لوگ
میری طرح سے خود پیچھے رہ جاتے ہیں

شہر سارا ہی ہوگیا روپوش
کوئی ملتا نہیں ٹھکانے پر

یقیں اب ہوگیا میں سچ ہوں عارف
جبھی دنیا مجھے جھٹلا رہی ہے

سولی پہ چڑھا کر مرے چاند اور مرے سورج
اب شہر میں مٹی کے دیے بانٹ رہا ہے

ایسا نہ ہو وہ خود کو سمجھنے لگے خدا
اتنا بھی جھکنا ٹھیک نہیں التماس میں

وہاں ہر چیز تھی اک جنس وفا تھی نایاب
خاک ڈال آیا ترے شہر کے بازاروں پر

جب کوئی اہم فیصلہ کرنا
اپنے بچوں سے مشورہ کرنا

میں نے سیکھا ہے اپنے بچوں سے
سچ کا اظہار برملا کرنا

وقت کرتا ہے خود فیصلہ ایک دن
اب ہمیں وقت کا فیصلہ چاہیے

چند سکے نہ دے ہم کو خیرات میں
اپنی محنت کا پورا صلہ چاہیے

عارف وہ فیصلے کی گھڑی بھی عجیب تھی
دل کو سنبھالنا پڑا میزان کی طرح

پوچھتے ہیں لوگ مجھ سے کیوں میرا نام و نسب
سوچ لیں پیغمبروں سے سلسلہ مل جائے گا

تجھے میں زندگی اپنی سمجھ رہا تھا مگر
ترے بغیر بسر میں نے زندگی کرلی

اپنے دروازے پہ خود ہی دستکیں دیتا ہے وہ
اجنبی لہجے میں پھر وہ پوچھتا ہے کون ہے

کوئی لشکر یہاں سے گزرا ہے
اتنی اُجڑی یہ رہگزر کیوں ہے

خوب ہے تیری عاجزی لیکن
اونچا مسجد سے تیرا گھر کیوں ہے

کیا کبھی تُو نے سچ نہیں بولا
تیرے شانوں پر پھر یہ سر کیوں ہے

نظمیں

.. رابطہ..

اپنی ذات
اپنے گھر
اپنے مذہب
اپنی تہزیب
اور اپنے قبیلے کی
دیواریں اتنی بھی اونچی نہ کرو
کہ ساری دنیا سے
تمہارا رابطہ کٹ جائے

.. زمینی کتاب..

اب تک آسمانوں سے
زمین پر کتابیں اتری ہیں
میں اس زمین کا شاعر ہوں
میری خواہش ہے کہ
ایک کتاب زمین سے
آسمانوں پر بھی اترے
کیونکہ
آسمان والے جان سکیں
کہ
قیامت سے پہلے
زمین پر کتنی قیامتیں
گزر چکی ہیں

.. محرومی..

میں ماں باپ کے ہوتے ہوئے
یتیموں کی طرح
زندگی گزار رہا ہوں
تنہا کھڑا
اس کتیا کو دیکھ رہا ہوں
جو اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہی ہے
پیار سے ان کو چاٹ رہی ہے
اور
میں بیٹھا سوچ رہا ہوں
کاش میں پلا ہی ہوتا

Leave a reply