بچے جن کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں!!! — علی منور

0
48

دو بچے جن کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔

1 وہ جو میٹرک میں ٹاپ کرتے ہیں، پھر کالج میں بڑے ارمانوں کے ساتھ ایف ایس سی پری میڈیکل کے سبجیکٹس رکھتے ہیں اور سکالر شپ پر پڑھتے ہیں۔ پورا خاندان ان پر فخر کرتا ہے اور والدین سینہ تان کر چلتے ہیں۔ پھر تین چیزیں ہوتی ہیں۔

ایک یہ کہ بچہ محنت جاری رکھتا ہے اور انٹر کے سخت امتحان کے بعد میڈیکل کا اینٹرنس ایگزام بھی سر کر لیتا ہے اور ڈاکٹر بننے کے سفر پر چل پڑھتا ہے۔

دوسرا یہ کہ اپنی قابلیت کے زعم میں بہت سی چیزیں انڈر ایسٹیمیٹ کر لیتا ہے اور خود کو خراب کر بیٹھتا ہے، پھر مطلوبہ نتائج نہ آنے پر سسٹم کو، میرٹ کو اور پہنچ والوں کو کوسنے دینے شروع کرتا ہے کہ ذمے دار اس کے اپنے علاوہ باقی سب ہیں جبکہ ایسے کیسز میں قصور وار والدین بھی ہوتے ہیں مگر ان کا سارا زور بھی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دینے پر ہوتا ہے۔

تیسرے نمبر پر وہ بچے ہوتے ہیں جو میٹرک کے بعد انٹر میں بھی سخت محنت کرتے ہیں اور پھر میڈیکل کا اینٹرنس ایگزام بھی خوش اسلوبی سے دیتے ہیں مگر کسی بھی وجہ سے میرٹ سے ایک دو پوائنٹس کے فرق سے رہ جاتے ہیں۔ یہ بچے ہر لحاظ سے قابلیت کے اعلی معیار پر پورے اترتے ہیں مگر جب اپنے ہی سامنے اپنے ساتھ والوں کو سرکاری کالجز میں یا اپنے سے کمتر بچوں کو پیسے کے بل پر پرائیویٹ کالجز میں داخلہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ڈپریشن کے سخت فیز میں چلے جاتے ہیں کیونکہ سرکاری داخلے کے اہل بچوں کے برابر تو محنت انہوں نے کی ہوتی ہے اور رزلٹس میں بس پوائنٹس کے فرق سے بات رہی ہوتی ہے جبکہ پرائیوٹ کالج کی فیس بھرنے کے قابل والدین نہیں ہوتے تو وہ کسی چھوٹی ڈگری کو ذہنی طور پر تسلیم نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً معاشرے کو ایک سخت رو استاد میسر آتا ہے جس کی صحیح وقت میں درست راہنمائی نہ ہونے کی صورت میں اگلی نسل کے لیے مایوسیوں کے کئی در کھلتے ہیں اور سینکڑوں پھول کھلنے سے پہلے ہی مایوسی کی زندہ مثال دیکھ کر مرجھا جاتے ہیں۔

تباہ ہونے والے دوسری قسم کے بچے وہ ہوتے ہیں جن کے والدین ان پر پڑھائی کے لیے شیڈول سخت رکھتے ہیں۔ ان کے کھیلنے اور پڑھنے کے اوقات کار فکس ہوتے ہیں۔ دور کے رشتہ داروں کی شادیوں میں، مووی دیکھنے، یا کسی فضول فنکشن میں ان کو جانے کی اجازت نہیں ملتی کہ مبادا پڑھائی کا ہرج ہو۔ ان کے ماموں، پھوپھو، خالہ یا چاچو کے بچے جو ہمہ وقت کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں اور ہر چھوٹی بات پر سکول سے چھٹی کرتے ہیں اور والدین ان کزنز کے بارے میں ہمیشہ کہتے ہیں کہ بیٹا پڑھ لکھ کر افسر بن جاؤ ورنہ دیکھ لینا پڑھائی نہ کرنے کی وجہ سے تمہارے یہ کزن مزدوریاں کریں گے۔

پھر ایک دن آتا ہے جب بچے اپنی مارکس شیٹیں ہاتھ میں تھامے کبھی داخلے کے لیے اور کبھی کسی اور مقصد کے لیے دفاتر میں ایڑیاں گھسا رہے ہوتے ہیں تبھی ان کے وہ نکمے کزن ٹک ٹاک پر ناچتے ہوئے وائرل ہو جاتے ہیں اور پیسوں میں کھیل رہے ہوتے ہیں۔ تب ان کو سمجھ نہیں آتا کہ انہوں نے بچپن کی ساری خوشیاں ہنگامے اور موج مستیاں کس پڑھائی کے لیے وار دیں جب ان کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت کھیل کود میں مشغول رہنے والے سوسائٹی کی آنکھ کا تارا بھی بنے اور پیسے میں بھی کھیلے۔ حد تو تب ہوتی ہے جب دوران تعلیم ان بچوں کو منہ بھی نہ لگانے والے اساتذہ کرام ناچ کر وائرل ہونے والوں کے ساتھ سیلفیاں بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں اور فخریہ بتاتے ہیں یہ فلاں ہمارا سٹوڈنٹ تھا یا تھی۔

سمجھ نہیں آتا کہ وہ کونسی ترجیحات ہیں جس سے معاشرے میں ترقی کی راہ اپنائی جا سکتی ہے اور بچوں کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ پڑھنا لکھنا اور باشعور و بامقصد رہنا ہی ان کے اپنے لیے اور ان کے ملک و ملت کے لیے سود مند ہے۔ ناچ گانا، ٹک ٹاک اور گیمز صرف وقتی چیزیں ہیں جن کا جز وقتی اور سستی شہرت کے سوا کچھ حاصل نہیں۔

Leave a reply