ماحولیاتی آلودگی کے باعث جانوروں اور پودوں کی 10 فیصد سے زائد اقسام ناپید ہونے کا خطرہ

0
67

 ماحولیاتی آلودگی کے باعث جانوروں اور پودوں کی 10 فیصد سے زائد اقسام ناپید ہونے کا خطرہ ہے۔

گلوبل وارمنگ، زمین کا مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت، بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی اور خشک سالی جہاں انسانی زندگی کے لیے خطرناک ہے وہیں اس سے جنگلی حیات بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ اگر گلوبل وارمنگ اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج پر قابو نہ پایا گیا تو اس صدی کے آخر تک جانوروں اور پودوں کی 10 فیصد سے زائد اقسام ناپید ہو جائیں گی۔

جریدے سائنس ایڈوانسز میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی آلودگی سے جانور ہی نہیں پودے بھی اپنے قدرتی مسکن سے محروم ہو رہے ہیں۔ بدلتا درجہ حرارت نازک پودوں اور جانوروں کے لیے تباہ کن ہے۔ رپورٹ کے مطابق آئندہ دہائیوں میں پودوں اور جانوروں کی معدومیت میں تیزی آئے گی جس سے زمین کا ایکو سسٹم بری طرح متاثر ہو گا۔

ایکو سسٹم کے تحت بہت سے چھوٹے جانور اور پرندے، پھول پتے اور پھل کھا کر گزارا کرتے ہیں۔ یہ پرندے اور چھوٹے جانور، بڑے جانوروں کا شکار بنتے ہیں۔ اگر چین سسٹم ٹوٹتا ہے یا اس اس کے کسی درجے میں پائے جانے والے جانداروں کی تعداد میں تیزی سے کم ہوتی ہے تو انہیں بطور خوراک استعمال کرنے والوں کی بقا بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

پودوں اور جانوروں کو لاحق معدومیت کے خطرے کو عموماً آئی یو سی این ریڈ لِسٹ میں زیرِ نگرانی رکھا جاتا ہے۔ اس میں سائنس دانوں نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد اقسام کو لاحق خطرات کا تجزیہ پیش کیا جس میں معلوم ہوا کہ 42 ہزار سے زائد اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں جس کی زیادہ تر ذمہ داری انسانی سرگرمیوں پر عائد ہوتی ہے۔
مزید یہ بھی پڑھیں.
بلاول نے ارجنٹینا کی جیت پر لیاری میں ہونے والے جشن کی ویڈیو شیئرکردی
احسان فراموش نہ بنیں، پرویز الہی نے پی ٹی آئی کو کھری کھری سنا دی
شوگر کے مریضوں کیلئے استعمال کی جانیوالی انسولین کی قلت کا انکشاف
بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا،ڈیم فنڈ اب بھی محفوظ ہے.ثاقب نثار
اسلام آباد پولیس نے گمنام شکایت پر مقدمہ درج کرنے کی غلطی تسلیم کر لی
رپورٹ کے مطابق 6 فی صد پودے اور جانور 2050 تک معدوم ہوجائیں گے جبکہ یہ شرح اس صدی کے آخر تک 13 فی صد تک پہنچ جائے گی۔ سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق بد ترین حالات میں 2100 تک 27 فی صد پودے اور جانور معدوم ہوسکتے ہیں۔

Leave a reply