(کسی کو آنکھیں عطیہ کرنا)
انسانی آنکھوں کو دنیا کی ہر زبان کے ادب میں موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ کوئی محبوب کی آنکھوں کو سمندر سے تشبیہ دیتا ہے تو کوئی ان آنکھوں کی سیاہی میں اپنی زندگی کی روشنی تلاش کرتا ہے۔ بقول عدیم ہاشمی
کیا خبر تھی تری آنکھوں میں بھی دل ڈوبے گا
میں تو سمجھا تھا کہ پڑتے ہیں بھنور پانی میں
آنکھیں جہاں خوبصورتی کا ایک پیمانہ ہیں تو وہیں آنکھوں سے جڑے امراض بھی پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً 10 لاکھ افراد بینائی سے مکمل یا جزوی محروم ہیں۔ دنیا بھر میں 4 کروڑ افراد بینائی سے مکمل محروم ہیں اور اڑھائی ارب جزوی طور پر کسی نہ کسی درجے میں محروم بصارت ہیں۔ اس موضوع پر تو کئی کتب لکھی جا سکتی ہیں۔ آج ہم بات کریں گے کارنیا کے ٹرانسپلانٹ پر۔ اسے ڈاکٹرز keratoplasty ھی کہتے ہیں۔
کارنیا ہماری آنکھ کے نظر آنے والے گہرے گول سے حصے کے اوپر ایک صاف شفاف شیشہ سا ہے۔ جو آنکھ کے اندرونی حصے میں جراثیم، دھول، مٹی، انفیکشن جانے سے روکتا ہے۔ کورنیا روشنی کو اندر جانے کی اجازت دیتا ہے۔ اور روشنی کی شعاعوں کو اس طرح موڑتا ہے کہ فوکس پر آ جائیں۔ یعنی ہماری آنکھ کا فوکس کارنیا بناتا ہے۔ کارنیا میں پیدائشی یا بعد میں کسی خرابی ہو یا کسی بیماری و حادثے کی صورت میں کارنیا ڈیمج یا خراب ہوجائے تو دنیا بھر میں خراب کارنیا نکال کر نیا کارنیا لگا دیا جاتا ہے۔
کارنیا کا مکمل خراب ہونا بینائی سے ممکل محرومی کا سبب بن جاتا ہے۔ امریکہ میں ہر سال 50 ہزار لوگوں کا کارنیل ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں سالانہ کارنیل ٹرانسپلانٹ کی تعداد 2000 کے آس پاس رہتی ہے۔ جن میں سے 800 ٹرانسپلانٹ سالانہ تو الشفا ٹرسٹ آئی ہسپتال راولپنڈی میں ہوتے ہیں۔ ہر پیدائشی نابینا فرد کو ضروری نہیں کارنیا ڈال کر بصارت لوٹائی جا سکے مگر چیک ضرور کروا لینا چاہیے کہ کارنیا تو خراب نہیں۔ اگر وہ ہے تو کوشش کرکے ٹرانسپلانٹ کروا لیں۔
پاکستان میں کارنیا عموماً امریکہ اور سری لنکا سے آتے ہیں۔ وہاں لوگ مرنے سے پہلے وصیت کر جاتے ہیں کہ ان کی وفات کے بعد آنکھیں عطیہ کر دی جائیں۔ جیسے ہی فرد فوت ہوتا ہے 6 گھنٹوں کے اندر اس کی دونوں آنکھوں کی اوپری ٹرانس پیرنٹ جھلی یعنی کارنیا 8 یا 9 ملی میٹر گولائی میں کاٹ لی جاتی ہے۔ اسے محفوظ کر لیا جاتا ہے اور جلد ہی کسی انسانی آنکھ میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں اب تو آرٹیفشل کارنیا بھی موجود ہیں مگر وہ پائیدار اور قابل اعتماد نہیں ہیں۔ کسی جانور کا کارنیا انسان کو نہیں لگایا جا سکتا۔
ہم پاکستان میں بھی کارنیا ٹرانسپلانٹ سنٹرز جیسے الشفا ٹرسٹ آئی ہسپتال راولپنڈی میں جاکر وصیت لکھ سکتے ہیں۔ اپنے گھر والوں کو اس بارے میں بتا سکتے ہیں۔ کہ ہماری موت کے بعد ہماری آنکھوں سے کارنیا لیکر کسی نابینا فرد کو ڈال دیا جائے۔ کچھ علماء اسے حرام کہتے ہیں اور کچھ حلال۔ میرا ماننا ہے کہ ہمارا جسم ہمارے مال کی طرح اللہ کی طرف سے دیا گیا ایک عطیہ ہے۔ جیسے ہم مال اسکی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں ویسے ہی ہماری آنکھ کی ایک معمولی سی جھلی کسی کی تاریک دنیا کو روشن کر سکتی ہے تو یہ کام ضرور کرنا چاہیے۔ میں انشاء اللہ اپنی آنکھوں کے عطیہ کی وصیت بہت جلد کردونگا۔۔کہ میری وفات کے بعد کارنیا لے کر کسی نابینا فرد کو لگا دیے جائیں۔ زندگی میں ایسا کرنا کسی کو ایک یا دو کارنیا دینا مناسب نہیں۔ ایک گردہ یا جگر کا ایک حصہ دے سکتے ہیں۔ مگر ان سب کی کوئی قیمت نہ وصول کی جائے۔
اعضا کے ہم مالک نہیں ہیں۔ اور کسی کو زندگی یا موت کے بعد دے نہیں سکتے۔ میرا اس بیانیے سے اتفاق نہیں ہے۔ بے شمار جید علماء اکرام بھی اسے درست نہیں مانتے۔ مولانا اسرار احمد مرحوم کا بھی یہی موقف تھا جو میرا ہے۔ تقریباً تمام عالمی سطح کے اسکالرز کا یہی موقف ہے۔ اور یہ کام پاکستان میں ہو بھی رہا ہے۔
آئیے اس پیغام کو عام کریں۔ اپنے آس پاس نابینا بچوں و افراد کے والدین کو گائیڈ کریں کہ وہ انکی آنکھوں کا چیک اپ کروائیں۔ اگر کارنیا ٹرانسپلانٹ سے بینائی لوٹ سکتی تو ان کے لیے کارنیا ارینج کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایک لمحے کے لیے تصور تو کریں آپ نابینا ہو جائیں تو کیا ہو؟ اگر کسی نابینا کو بینائی مل جائے تو اسکی زندگی کیسی خوبصورت ہوجائے گی؟







