سنگین جرائم کی روک تھام،DNA ڈیٹا اہم ضرورت
تحریر. میاں عدیل اشرف
تحصیل چونیاں ضلع قصور
ہمارے پیارے ملک پاکستان میں رہنے والےلوگوں میں کبھی بہت پیار,محبت,ہمدردی احساس ہوا کرتا تھا لوگ مل جل کر کام کرتے، بڑے چھوٹوں کا اور چھوٹے بڑوں کا,مرد خواتین کا اور خواتین مردوں کا بہت احترام کرتی تھیں دوسروں کی ماں,بیٹی,بہوں کی عزت کو اپنی عزت سمجھا جاتا تھا . زنا ، کم عمر بچوں سے زیادتی کا نام و نشان تک نہیں تھا، چوریوں ڈکیتیوں کی وارداتیں لوگوں کا قتل بہت کم تھا – پولیس کا لوگوں پر رعب تھا جرائم کم تھے لیکن جیسے جیسے حالات بدلتے گئے لوگوں کے احساسات بدلتے گئے فحاشی عام ہوتی گئی، بے ہودہ ڈرامے, فلمیں دیکھنے کا رواج بڑھتا گیا لوگوں کی سوچ بدلتی گئی ، ملک میں زنا کاری اور فحاشی عام ہو گئی،کم عمر بچوں سے زیادتی جیسے واقعات بڑھ گئے آئے روز کبھی کسی شہر میں کبھی کسی اور شہر میں لڑکیوں، لڑکوں سے زیادتی کے واقعات سامنے آ رہے، لوگ ایک دوسرے کو قتل کر رہیں چوریوں، ڈکیتیوں کی وارداتیں تو عام سی بات ہے، ہر طرح کے جرائم میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا اور اس سب کو کنٹرول کرنا مشکل ترین ہو چکا اگر کہیں کوئی جرم ہوتا ہے تو اصل مجرم تک پہنچنے کیلئے کئی دن,مہینے,سال گزر جاتے ہیں – 100 میں سے80 فیصد بے گناہوں کو سزائیں ملتی ہیں لیکن اصل مجرم سرعام جرائم کرتے پھرتے ہیں ان کو پکڑنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہاہے، کسی مجرم کو سیاسی پناہ حاصل ہے تو کوئی قانون کو پیسے سے خرید لیتا ہے، آخر ہمارے ملک پاکستان میں ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ ظالم کب تک مظلوموں پر ظلم کرتے رہیں گے؟ کم سن بچوں سے زیادتی جیسے واقعات کب تک ہوتے رہیں گے؟ ضلع قصور میں سنگین نوعیت کے دو ایسے واقعات دیکھنے آئے ہیں جن میں چونیاں سے تعلق رکھنے والے چار بچوں سے زیادتی کا معاملہ اور قصور میں ننھی زینب کا معاملہ دونوں ملتے جلتے کیس تھے جس میں پولیس اور حساس اداروں نے دن رات کی محنت سے اور عام لوگوں کے تعاون سے اصل مجرم تک پہنچے ان دونوں کیسسز میں مجرمان کو پکڑنے کے لیے جو طریقہ کار مشترکہ طور پر اپنایا گیا وہ تھا DNA کا عمل جس کے ذریعے تقریباً ہزاروں افراد کےDNA سیمپل لیے گئے اور آخر کار اصل مجرمان کے سیمپل میچ ہونے سے مجرمان کی شناخت ہوئی اس عمل کو کرنے پر حکومت کے کروڑوں روپے کے اخراجات ہوئے جو کہ کرنا ضروری تھے DNAک ے بغیر مجرمان تک پہنچنا ناممکن تھا اور آخر کار مجرم پکڑے گئے اس طرح کے کئی واقعات ہو رہے اور کئی دوسرے جرائم ایسے ہیں جن میں DNA سیمپلز لینے کی ضرورت پڑتی ورنہ مجرم کوپکڑنا مشکل ترین ہوتا اس لیے ایک تجویز ہے کہ جس طرح دوسرے چند ترقی یافتہ ممالک میں ہر فرد کا DNAٹ یسٹ کا نمونہ گورنمنٹ کے پاس ریکارڈ میں ہوتا جس کے ذریعے جرائم میں ملوث افراد تک چند دنوں کی بجائے چند گھنٹوں میں پہنچنا ممکن ہوتا اور شاید ان ممالک میں جرائم میں نمایاں کمی لانے کی ایک وجہ DNA بھی ہو سکتا ہے تو کیا ہمارے ملک پاکستان میں ایسا ممکن کیوں نہیں ہو سکتا؟ پاکستان میں بھی اگر اس طرح کا مربوط نظام بنا دیا جائے جس کے زریعے ہر پاکستانی شہری کا DNA سیمپل گورنمنٹ آف پاکستان کے ریکارڈ کا حصہ بن سکے اس نظام کو بنانے کا آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ جب کسی فرد کا شناختی کارڈ بنایا جاتاہے اس وقت نادرا ڈیپارٹمنٹ کے اشتراق سے نادرا آفس میں ایک کاؤنٹر ڈی این اے سیمپل کولیکشن بنایا جائے جو نئے شناختی کارڈ بنوانے کے حصول کے لیے آنے والے افراد کے فنگرز پرنٹ لینے کے ساتھ ساتھ اس افراد کا DNA سیمپل لے کر اس کو گورنمنٹ ڈیٹا بیس کا حصہ بنائے اس طرح آہستہ آہستہ پورے پاکستان کے افراد کی ڈیٹا بیس بن سکتی اور اس عمل کے ذریعےجب بھی کسی حادثے یا کسی بھی جرائم میں ملوث افراد کی شناخت کاپتہ لگانا ہو گا تو اس ڈیٹا بیس کی مدد سے جلد سے جلد پتہ چل سکے گا اصل مجرم کون ،کیونکہ DNA ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو ہرانسان کے اندر دوسرے سے مختلف ہوتے یا پھر اس افراد کی اولاد کے ساتھ میچ ہوتے دوسرے کسی انسان سے میچ نہیں ہو سکتےاگر پاکستان میں ایسا ڈیٹا بیس بنانے کا نظام بنتا ہے تو اس سے پولیس کو ریپ جیسے سنگین کیس نبٹانے میں بہت زیادہ آسانی ہو گی دوسری وجہ سننے میں آتا ہے کہ فلاں بے گناہ کو پولیس نے پکڑ لیا اس طرح جو بے گناہ لوگوں کو پولیس سنگین جرائم میں ملوث کرتی ہے اگر وہاں ملنے والے شواہد سے ڈی این اے میچ کیا جائے تو ان کی شرح میں بھی کمی واقع ہو گی اور کسی ایمرجنسی حادثات کی صورت میں جہاں آگ میں جلنے سےیالاش کا پانی میں زیادہ دیر رہنے سے لاش کی شناخت کرنا انتہائی مشکل ترین ہو جاتا DNA کی مدد سےشناخت کرنےمیں بھی آسانی ہو گی، جو پیسے گورنمنٹ افسوس ناک واقعات کے رونما ہونے کے بعد اخراجات کے طور پر استعمال کرتی انہی پیسوں کو پہلے ہی ایسا نظام بنانے پر خرچ کیا جائے تو مستقبل میں بہت سے اخراجات بچ سکتے ہیں ایسا نظام بنانے کے لیے سٹاف کی بہت ضرورت ہو گی اگر گونمنٹ آف پاکستان ایسا مربوط نظام بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو جرائم کی شرح میں بے پناہ کمی ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کے پڑھے لکھے نوجوان جو بے روزگار ہیں ان کو نوکریاں بھی ملیں گی جو کہ نوجوانوں کی ایک اہم ضرورت بھی ہے.اللہ ہمارے ملک کو ہمیشہ سلامت رکھےاور ملک دشمن عناصر سے حفاظت فرمائے.آمین۔پاکستان زندہ باد

Shares:








