کوئی باقی رہ گیا؟ تجزیہ :شہزاد قریشی
سیاسی انتشار کیساتھ معاشی زوال ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، فیصلہ ساز اداروں پر سوالیہ نشان ہے ۔ اس معاشی زوال کا ذمہ دار کسی فرد واحد، سیاسی جماعت یا فیصلہ ساز اداروں کو نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے ذمہ دار سب ہیں۔ موجودہ بے ہودہ شور شرابے کی کیفیت میں معاشی زوال مزید تشویشناک ہوتا جا رہا ہے۔ اس معاشی زوال کی ایک وجہ سیاسی انتشار اور محاذ آرائی ہے۔ ریاست کے حالات اور کردار کا دارومدار معاشی نظام پر ہوتا ہے۔ آج ملک معاشی زوال کی جس نہج پر کھڑا ہے غریب عوام کے معاشی قتل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بالادست طبقے کی لڑائی نے ملک و قوم کو بلی چڑھا دیا ہے۔ سالوں سے پارلیمنٹ ہائوس میں بیٹھے ان سیاستدانوں نے ملکی وسائل پر توجہ ہی نہیں دی اورنہ ہی فیصلہ ساز اداروں نے ان کی توجہ کا مرکز آئی ایم ایف ، چین، عرب ممالک عالمی مالیاتی ادارے رہے جن سے قرض در قرض لے کر ملک چلاتے رہے۔
موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار قرار دے کر قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے یہ پرانا وطیرہ ہے ڈان لیکس میں جس طرح پرویز رشید کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور ان کو سینٹ سے باہر کر دیا گیا قانون کی حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی، آئین اور جمہوریت کی آواز بلند کرنے والے کو نوازشریف کے وفادار ساتھی کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ یہ پارلیمنٹ ماضی کے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے اے ٹی ایم لینڈ مافیا کی پشت پناہی، چینی مافیا کی پشت پناہی کرنے والوں کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ جس پارلیمنٹ ہائوس میں بے نظیر بھٹو، نوابزادہ نصر اللہ، قاضی حسین احمد، مولانا عبدالستار خان نیازی، ولی خان اور ان جیسے دیگر سیاستدان اپوزیشن کا کردار ادا کرتے آج اس پارلیمنٹ ہائوس میں راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر ہیں پارلیمنٹ ہائوس اور آج کی جدید جمہوریت پر سوالیہ نشان ہے؟
سینئر سے سینئر ترین کہلوانے والے صحافی کرکٹ جو نوجوانوں کا کھیل ہے چیئرمین کے عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں پڑھے لکھے نوجوان خاکروبوں کی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نام نہاد ماہرین، فیصلہ ساز اداروں، سیاستدانوں کی لایعنی اور گری ہوئی گفتگو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ موجودہ نظام کے رکھوالوں کے پاس معاشرے کو درپیش سنگین مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ ملک کے وزیر اعظم میاں محمد شہبازشریف اور آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور دیگر پی ڈی ایم والوں سے گزارش ہے کہ اگر کوئی باقی رہ گیا ہے تو اسے بھی وزیر اہر مشیر بنا دیں تاکہ قوم کے لئے خزانے میں کچھ بھی نہ بچے۔