جادو ہے یا طلسم تمھاری زبان میں

0
79

جادو ہے یا طلسم تمھاری زبان میں
تم جھوٹ کہہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا

نام سید وحید الدین، تخلص بیخودؔ ۔ پہلا تخلص نادرؔ تھا۔ 21مارچ 1863ء کو بھرت پور میں پید اہوئے۔ دہلی ان کا مولد ومسکن تھا۔ بیخودؔ نے دہلی میں اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا حالیؔ سے ’’مہرنیم روز‘‘ اور اساتذہ کے دواوین پڑھے۔ حالیؔ ہی کے ایما سے داغؔ کے شاگرد ہوئے۔ شاعری بیخودؔ کو ورثے میں ملی تھی۔ شاعری میں دلی ٹکسالی زبان،محاورات اور روز مرہ کا استعمال جس خوبی سے بیخود کرتے تھے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی وجہ سے تمام اساتذۂ فن نے انھیں داغؔ کا صحیح جانشین تسلیم کیا ہے۔

بیخودؔ خوش پوشاک اور خوش خوراک ہونے کے علاوہ شاہ خرچ بھی تھے۔ 1948ء میں وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کچھ وظیفہ مقرر کردیا تھا۔ 150 روپیہ ماہوار وزارت تعلیم حکومت ہند سے ملتا تھا جس کے سربراہ مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ ان کے دو دیوان’’گفتار بیخود‘‘ اور ’’شہوار بیخود‘‘ طبع ہوچکے ہیں ۔02اکتوبر 1955ء کو دہلی میں انتقال ہوا۔

منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔
ادائیں دیکھنے بیٹھے ہو کیا آئینہ میں اپنی
دیا ہے جس نے تم جیسے کو دل اس کا جگر دیکھو

آئنہ دیکھ کر وہ یہ سمجھے
مل گیا حسن بے مثال ہمیں

راہ میں بیٹھا ہوں میں تم سنگ رہ سمجھو مجھے
آدمی بن جاؤں گا کچھ ٹھوکریں کھانے کے بعد

نہ دیکھنا کبھی آئینہ بھول کر دیکھو
تمہارے حسن کا پیدا جواب کر دے گا

وہ کچھ مسکرانا وہ کچھ جھینپ جانا
جوانی ادائیں سکھاتی ہیں کیا کیا

بولے وہ مسکرا کے بہت التجا کے بعد
جی تو یہ چاہتا ہے تری مان جائیے

دل محبت سے بھر گیا بیخودؔ
اب کسی پر فدا نہیں ہوتا

دل تو لیتے ہو مگر یہ بھی رہے یاد تمہیں
جو ہمارا نہ ہوا کب وہ تمہارا ہوگا

سن کے ساری داستان رنج و غم
کہہ دیا اس نے کہ پھر ہم کیا کریں

قیامت ہے تری اٹھتی جوانی
غضب ڈھانے لگیں نیچی نگاہیں

دل ہوا جان ہوئی ان کی بھلا کیا قیمت
ایسی چیزوں کے کہیں دام دیے جاتے ہیں

مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند
دونوں ہیں خود غرض مجھے دونوں ہیں نا پسند

بات کرنے کی شب وصل اجازت دے دو
مجھ کو دم بھر کے لئے غیر کی قسمت دے دو

جواب سوچ کے وہ دل میں مسکراتے ہیں
ابھی زبان پہ میری سوال بھی تو نہ تھا

نمک بھر کر مرے زخموں میں تم کیا مسکراتے ہو
مرے زخموں کو دیکھو مسکرانا اس کو کہتے ہیں

منہ میں واعظ کے بھی بھر آتا ہے پانی اکثر
جب کبھی تذکرۂ جام شراب آتا ہے

تکیہ ہٹتا نہیں پہلو سے یہ کیا ہے بیخودؔ
کوئی بوتل تو نہیں تم نے چھپا رکھی ہے

رقیبوں کے لیے اچھا ٹھکانا ہو گیا پیدا
خدا آباد رکھے میں تو کہتا ہوں جہنم کو

سوال وصل پر کچھ سوچ کر اس نے کہا مجھ سے
ابھی وعدہ تو کر سکتے نہیں ہیں ہم مگر دیکھو

اب آپ کوئی کام سکھا دیجئے ہم کو
معلوم ہوا عشق کے قابل تو نہیں ہم

بات وہ کہئے کہ جس بات کے سو پہلو ہوں
کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کے لیے

انہیں تو ستم کا مزا پڑ گیا ہے
کہاں کا تجاہل کہاں کا تغافل

میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بیخودؔ
میں ہوں اردو کا نظیریؔ مجھے تو کیا سمجھا

پڑھے جاؤ بیخودؔ غزل پر غزل
وہ بت بن گئے ہیں سنے جائیں گے

جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں
تم جھوٹ کہہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا

غم میں ڈوبے ہی رہے دم نہ ہمارا نکلا
بحر ہستی کا بہت دور کنارا نکلا

تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنے

محفل وہی مکان وہی آدمی وہی
یا ہم نئے ہیں یا تری عادت بدل گئی

بیخودؔ تو مر مٹے جو کہا اس نے ناز سے
اک شعر آ گیا ہے ہمیں آپ کا پسند

بھولے سے کہا مان بھی لیتے ہیں کسی کا
ہر بات میں تکرار کی عادت نہیں اچھی

یہ کہہ کے میرے سامنے ٹالا رقیب کو
مجھ سے کبھی کی جان نہ پہچان جائیے

تمہاری یاد میرا دل یہ دونوں چلتے پرزے ہیں
جو ان میں سے کوئی مٹتا مجھے پہلے مٹا جاتا

دی قسم وصل میں اس بت کو خدا کی تو کہا
تجھ کو آتا ہے خدا یاد ہمارے ہوتے

دشمن کے گھر سے چل کے دکھا دو جدا جدا
یہ بانکپن کی چال یہ ناز و ادا کی ہے

منہ پھیر کر وہ کہتے ہیں بس مان جائیے
اس شرم اس لحاظ کے قربان جائیے

ہمیں اسلام اسے اتنا تعلق ہے ابھی باقی
بتوں سے جب بگڑتی ہے خدا کو یاد کرتے ہیں

ہو لیے جس کے ہو لیے بیخودؔ
یار اپنا تو یہ حساب رہا

تیر قاتل کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
ہم تو دشمن کو بھی آرام دیے جاتے ہیں

کیا کہہ دیا یہ آپ نے چپکے سے کان میں
دل کا سنبھالنا مجھے دشوار ہو گیا

زمانہ ہم نے ظالم چھان مارا
نہیں ملتیں ترے ملنے کی راہیں

دل چرا کر لے گیا تھا کوئی شخص
پوچھنے سے فائدہ، تھا کوئی شخص

محبت اور مجنوں ہم تو سودا اس کو کہتے ہیں
فدا لیلیٰ پہ تھا آنکھوں کا اندھا اس کو کہتے ہیں

نہ دیکھے ہوں گے رند لاابالی تم نے بیخودؔ سے
کہ ایسے لوگ اب آنکھوں سے اوجھل ہوتے جاتے ہیں

حوروں سے نہ ہوگی یہ مدارات کسی کی
یاد آئے گی جنت میں ملاقات کسی کی

نظر کہیں ہے مخاطب کسی سے ہیں دل میں
جواب کس کو ملا ہے سوال کس کا تھا

سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا

سخت جاں ہوں مجھے اک وار سے کیا ہوتا ہے
ایسی چوٹیں کوئی دو چار تو آنے دیجے

چشم بد دور وہ بھولے بھی ہیں ناداں بھی ہیں
ظلم بھی مجھ پہ کبھی سوچ سمجھ کر نہ ہوا

موت آ رہی ہے وعدے پہ یا آ رہے ہو تم
کم ہو رہا ہے درد دل بے قرار کا

ہمیں پینے سے مطلب ہے جگہ کی قید کیا بیخودؔ
اسی کا نام جنت رکھ دیا بوتل جہاں رکھ دی

آپ ہوں ہم ہوں مئے ناب ہو تنہائی ہو
دل میں رہ رہ کے یہ ارمان چلے آتے ہیں

آئنہ دیکھ کے خورشید پہ کرتے ہیں نظر
پھر چھپا لیتے ہیں وہ چہرۂ انور اپنا

اے شیخ آدمی کے بھی درجے ہیں مختلف
انسان ہیں ضرور مگر واجبی سے آپ

دل میں پھر وصل کے ارمان چلے آتے ہیں
میرے روٹھے ہوئے مہمان چلے آتے ہیں

کوئی اس طرح سے ملنے کا مزا ملتا ہے
اوپری دل سے وہ ملتا ہے تو کیا ملتا ہے

رند مشرب کوئی بیخودؔ سا نہ ہوگا واللہ
پی کے مسجد ہی میں یہ خانہ خراب آتا ہے

بیخودؔ ضرور رات کو سوئے ہو پی کے تم
یہ تو کہو نماز پڑھی یا قضا ہوئی

جھوٹا جو کہا میں نے تو شرما کے وہ بولے
اللہ بگاڑے نہ بنی بات کسی کی

چلنے کی نہیں آج کوئی گھات کسی کی
سننے کے نہیں وصل میں ہم بات کسی کی

نامہ بر یہ تو کہی بات پتے کی تو نے
ذکر اس بزم میں رہتا تو ہے اکثر اپنا

دل وہ کافر ہے کہ مجھ کو نہ دیا چین کبھی
بے وفا تو بھی اسے لے کے پشیماں ہوگا

آپ شرما کے نہ فرمائیں ہمیں یاد نہیں
غیر کا ذکر ہے یہ آپ کی روداد نہیں

زاہدوں سے نہ بنی حشر کے دن بھی یارب
وہ کھڑے ہیں تری رحمت کے طلب گار جدا

اپنے جلوے کا وہ خود آپ تماشائی ہے
آئینے اس نے لگا رکھے ہیں دیواروں میں

تمہارے ہاتھ خالی جیب خالی زلف خالی تھی
نہ تھے تم چور دل کے لو ادھر دیکھو یہ کیا نکلا

ان کے آتے ہی ہوا حسرت و ارماں کا ہجوم
آج مہمان پہ مہمان چلے آتے ہیں

ملا کے خاک میں سرمایۂ دل بیخودؔ
وہ پوچھتے ہیں بتاؤ یہ مال کس کا تھا

آپ کو رنج ہوا آپ کے دشمن روئے
میں پشیمان ہوا حال سنا کر اپنا

وفا کا نام تو پیچھے لیا ہے
کہا تھا تم نے اس سے پیشتر کیا

اجازت مانگتی ہے دخت رز محفل میں آنے کی
مزا ہو شیخ صاحب کہہ اٹھیں بے اختیار آئے

اس جبین عرق افشاں پہ نہ چنئے افشاں
یہ ستارے کہیں مل جائیں نہ سیاروں میں

کچھ طرح رندوں نے دی کچھ محتسب بھی دب گیا
چھیڑ آپس میں سر بازار ہو کر رہ گئی

Leave a reply