فل بنچ تشکیل دے کر سیاسی، مخصوص پالیسی کے فیصلوں کا قلعہ قمع کیا جائے. امان اللہ کنرائی

supreme

سپریم کورٹ بار ایسوسیشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے سپریم کورٹ کے سینئیر جج اپنے ماضی قریب و بعید کے نظائر کے تناظر میں آج سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی فیصلے کی روشنی میں چیف جسٹس کے شاہی اختیارات کا آئینی تعین کے لئے اس کے بغیر فل بنچ تشکیل دیں جو چیف جسٹس کے آئینی اختیارات کی آئین کے آرٹیکل 176 کے پس منظر میں تشریح کرے

انہوں نے مزید کہا اس سے قبل 28 فروری 2023 کو بھی جناب جسٹس قاضی فائز عیسی و جناب جسٹس یحی آفریدی صاحب چیف جسٹس کی جانب سے بنچز کی تشکیل پر رجسٹرار آفس و سٹاف کی جانب سے کردار کو غیر آئینی قرار دیا جبکہ چیف جسٹس کو بالواسطہ نااھلی و مس کنڈکٹ کے مرتکب ہونے کے قریب پہنچا دیا اب آج 27 مارچ 2023 کے سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان کے آرڈر کو نظر انداز نہ کیا جائے اس مقصد کے لئے فوری فل بنچ تشکیل دے کر سیاسی و مخصوص پالیسی کے فیصلوں کا قلعہ قمع کیا جائے اس سلسلے میں اسد علی کیس PLD 1998 SC161 کے اندر رہنما اصول وضع شدہ ہیں جس میں سینئر Puisne جج کی ھدایت پر بنچ کی تشکیل ہوئی اور چیف جسٹس عہدے سے سبکدوش ہوئے.

واضح رہے کہ پنجاب اور کے پی الیکشن کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے لیے جانے والے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس کے حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا تفصیلی فیصلہ سامنے آگیا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ ور جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ از خود نوٹس 4 ججز نے مسترد کیا، آرڈر آف کورٹ 3-4 کا فیصلہ ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے’ون مین پاور شو‘ کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی، سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا، وقت آگیاہےکہ چیف جسٹس آفس کا ’ون مین شو‘ کا لطف اٹھانےکاسلسلہ ختم کیا جائے، از خود نوٹس کے اختیار کے بارے میں فُل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہوگی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے از خود نوٹس لیا تھا اور ابتدائی طور پر اس پر 9 رکنی لارجر بینچ بنایا گیا تھا۔ لارجر بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔ تاہم سماعت کے دوران جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں۔کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں، آڈیو میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184/3 کا نہیں بنتا۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
عدالت ایک شخص کے فیصلوں پر انحصار نہیں کر سکتی. سپریم کورٹ ججز
عمران فتنے نے اشتعال انگیزی پھیلا رکھی ہے نوازشریف کو بالکل واپس نہیں آنا چاہیے عفت عمر
گھر سے بھاگنے کے محض ڈیڑھ دو سال کے بعد میں اداکارہ بن گئی کنگنا رناوت
انتخابات ملتوی کرنےکامعاملہ،الیکشن کمیشن ،گورنر پنجاب اورکے پی کو نوٹس جاری
اسلام آباد ہائیکورٹ؛ کراچی کی 6 یوسز میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی روکنے کا حکم
بعد ازاں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد پانچ رکنی بینچ نے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی تھی۔ اس کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ 90 روز میں الیکشن کرائے جائیں۔ تاہم اب الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2023 کی نئی تاریخ کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد تحریک انصاف معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ لے گئی ہے جہاں اس کی سماعت جاری ہے۔

Comments are closed.