امید ہے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے ،عطا تارڑ

ata tarar

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ن لیگی رہنما، وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل نے اعتراضات پر مشتمل درخواست عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ میں دائر کر دی امید ہے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے ،

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ جب 4/3 سے سوموٹو کیس مسترد ہوچکا تو اس پر عملدرآمد کی پٹیشن کی گنجائش نہیں بنتی.کیس سننے والے موجودہ بینچ کی قانونی حیثیت اس لیے نہیں ہے کیونکہ 4/3 سے پچھلے کیس کا فیصلہ آچکا ہے.اگر جوڈیشل آرڈرز کو انتظامی آرڈرز کے تحت اوور رول کرنا شروع ہوگئے پورے ملک کا انصاف اورعدل کا نظام بیٹھ جائے گا اور ایک انارکی کی صورتحال ہوگی اس لیے رجسٹرار کے انتظامی آرڈر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے.آئین کا آرٹیکل 224 نگران حکومت کی بات کرتا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام ملک میں الیکشن بیک وقت ہونگے.کسی ایک صوبے یا وفاق میں کوئی سیاسی حکومت نہ ہو جو کسی دوسرے صوبے یا وفاق میں الیکشن پہ اثر انداز ہوسکے.

عطا تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ کہ آج جب سپریم کورٹ میں کارروائی کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے روبرو اعتراضات سے بھری درخواست جمع کرائی اٹارنی جنرل نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں وہ سنجیدہ نوعیت کے ہیں اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پہلے سات رکنی بینچ نے الیکشن کرانےکے حوالے سے فیصلہ کیا ہے وہ فیصلہ چار،تین کے تناسب سے آچکا ہے، چارججوں نے اس پٹیشن کو مسترد کیا دائرہ اختیار کے مطابق سپریم کورٹ یہ کیس نہیں سن سکتی یہ کیس واپس ہائیکورٹ بھجوانا تھا سپ یم کورٹ اس کیس میں ازخود نوٹس نہیں لے سکتی اس کے بعد عمل درآمد پٹیشن کی گنجائش ہی نہیں بنتی اس کیس میں سات سے پہلے 9 رکنی بنچ تھا ،جسٹس اعجاز الاحسن نے رضا کارانہ طور پر کیس سننے سے معذرت کر دی تھی اب بھی انھیں کیس کا حصہ بننے سے معذرت کر دینی چاہیے نورکنی بنچ اپنی رائے دے چکا ہے اب باقی کے چھ ججز پر مشتمل نیا بنچ بنا کر ان قانونی اورآئینی نکات کو دیکھا جائے 29 مارچ کے جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیصلہ بھی اعتراضات کی فہرست میں شامل ہے جسٹس فائز عیسی کے فیصلے کی ایک انتظامی حکم نامے سے نفی کی گئی، یہ غلط روایت ڈالی گئی ہے اس کی قانون اور آئین کے اندر کوئی گنجائش نہیں ہےملک کا جوڈیشل سسٹم ایسا ہونا شروع ہو گیا تو پورے ملک کا نظام انصاف متاثر ہو گارجسٹرار کے سرکلر کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے ۔ قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد اس معاملے پر مزید کارروائی آگے نہیں بڑھ سکتی اٹارنی جنرل نے وفاقی کی جانب سے یہ بھی موقف اختیار کیا کہ چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر بھی بنچ سے علیحدگی اختیار کریں ۔

عطا تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں ایک وقت الیکشن کے لئے آئینی تقاضا ہے کہ عبوری حکومتیں بنیں آرٹیکل 224 کے ہوتے ہوئے الگ الیکشن کی گنجائش نہیں ہے صدر مملکت کی اتھارٹی کو بھی اس درخواست میں چیلنج کیا ہے کہ صدر مملکت کے پاس الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ہے بلکہ یہ اختیار الیکشن کمیشن کا ہے پارلیمان ایک سپریم ادارہ ہے ازخود نوٹس بنچ کی تشکیل حوالے سے قانون سازی ہوچکی ہے

سیاسی بحران پیچھے رہ گیا، آئینی بحران نے ملک کو لپیٹ میں لے لیا

 فیصلے کی نہ کوئی قانونی حیثیت ہوگی نہ اخلاقی

 چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ کا بار بار ٹوٹنا سوالیہ نشان ہے،

 انصاف ہونا چاہیئے اور ہوتا نظر بھی آنا چاہیئے،

 عدالتوں میں کیسسز کا پیشگی ٹھیکہ رجسٹرار کو دے دیا جائے

 آئندہ ہفتے مقدمات کی سماعت کے لئے بنچز تشکیل

حکومت صدارتی حکمنامہ کے ذریعے چیف جسٹس کو جبری رخصت پر بھیجے،امان اللہ کنرانی

9 رکنی بینچ کے3 رکنی رہ جانا اندرونی اختلاف اورکیس پرعدم اتفاق کا نتیجہ ہے،رانا تنویر

Comments are closed.