سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہیں،اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان اور وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی عدالت میں پیش ہوئے،سماعت شروع ہوئی تو وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں 10منٹس دلائل دینا چاہتا ہوں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہم مہمان کے طور پربلاتے ہیں ہم تو آپ کا کیس نہیں سن رہے اٹارنی جنرل صاحب پہلے دلائل دے رہے ہیں ،

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس منیب اختر نے گزشتہ روز آبزرویشن دی آرٹیکل 184/3کو دیگر کیسز سے الگ کیوں کردیا ؟ ہائیکورٹ کے کئی فیصلوں کیخلاف انٹراکورٹ اپیل، سپریم کورٹ سے بھی اپیل کا حق ہوتا ہے آرٹیکل 184/3 میں نظرثانی کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے آئین کے تحت ریاست کے تینوں ستونوں کے امور کو متعین کر دیا گیا، سیکشن 3 میں کہیں نہیں لکھا 5 رکنی لارجر بنچ میں کیس کے بنچ کے ججز شامل نہیں ہوں گے،

وکیل الیکشن کمیشن نے دوبارہ کہا کہ مجھے 10منٹ دیں دلائل دینا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو آپ کا کیس سن ہی نہیں رہے اٹارنی جنرل کے بعد آپ کو سن لیتے ہیں ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب ہائیکورٹ کسی کیس کا فیصلہ کرتی ہے تو انٹراکورٹ سمیت دیگر اپیل کے فورمز موجود ہیں ،ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جاتا ہے،جب سپریم کورٹ آرٹیکل 184کی شق 3 کے تحت کیس سنتی ہے تو یہ پہلا عدالتی فورم ہوتا ہے قانون ساز عہد حاضر کو سامنے رکھ کر قانون سازی کرتے ہیں ریویو آف ججمنٹ کے تحت آرٹیکل 184 کی شق 3کے فیصلے کیخلاف اپیل 5 رکنی بنچ سنے گا،5 رکنی بنچ میں وہ 3 ججز بھی شامل ہوں گے جنہوں نے پہلے فیصلہ دیا ہوگا

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل سپریم کورٹ کا آرٹیکل 184(3) پر نقطہ نظر دوبارہ ظہور الہٰی کیس والا ہوگیا تو اس سے آج کے قانون پر فرق نہیں پڑتا،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا پوائنٹ نوٹ کر لیا ہے آگے چلیں، اٹارنی جنرل نے دلائل میں بھارتی سپریم کورٹ کے 2002 کیوریٹو ریویو کا حوالہ دیا اور کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کہا انصاف دینا کسی فیصلے کے حتمی ہونے سے کم اہم نہیں، فیصلہ میں کہا گیا کہ مکمل انصاف ہی خدائی منشاء ہے،عدالت خود کو آرڈر 26 تک محدود نہ کرے، آرڈر 26 دیوانی اور فوجداری کیسز سے متعلق ہے، سپریم کورٹ رولز 1980 میں بنائے گئے،آرٹیکل 188 نظر ثانی کے دائرہ کو محدود نہیں کرتا،1980 کے رولز آج کا تقاضا کیا ہے اس سے منع نہیں کرتے.اٹارنی جنرل نے بھارتی سپریم کورٹ کا کیوریٹیو نظر ثانی کیس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا انصاف کا قتل ہو تو ٹھیک کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے بھارتی سپریم کورٹ نے خود کو نظرثانی میں محدود نہیں کیا،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نظرثانی کو اپیل قرار نہیں دیا جا سکتا، زیر بحث قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ اپیل اور نظرثانی ایک ہی چیز ہیں،نظرثانی کو اپیل کی طرح سمجھنا ہی اصل سوال ہے،

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ہر اپیل آرٹیکل 185 کے تحت نہیں آتی، کورٹ فیصلوں کیخلاف اپیلیں آرٹیکل 185 کے تحت سپریم کورٹ آتی ہیں،مسابقتی کمیشن اور الیکشن ایکٹ میں بھی ٹربیونل کیخلاف اپیلیں براہ راست سپریم کورٹ آتی ہیں، سپریم کورٹ میں اپیل کا حق آئین کے علاوہ مختلف قوانین میں بھی دیا گیا ہے، جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نئے قانون میں اپیل کو نظرثانی کا درجہ دیا گیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں نیا قانون کہتا ہے نظرثانی اور اپیل ایک ہی بات ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ بھارتی سپریم کورٹ کے جس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں بھی نظر ثانی اور اپیل کا فرق برقرار رکھا گیا ہے، سپریم کورٹ اپنے اختیارات کو توسیع دے سکتی ہے، اٹارنی آپ کے دلائل آپ کی اپنی باتوں سے متصادم نظر آتے ہیں ،

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظر ثانی کا دائرہ اپیل کے دائرہ اختیار تک نہیں بڑھایا گیا۔اپیل میں مختلف بینچ کیس سنتا ہے۔ نئے قانون کے تحت نظرثانی سننے والے ججز میں اضافہ کیا جائے گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اپیل اور نظر ثانی کا دائرہ کار مختلف ہے نظر ثانی میں از سر نو سماعت تو نہیں ہو سکتی۔ آپ آرٹیکل 184/3 میں متاثرین کو داد رسی کا آپشن دینا چاہتے ہیں ہم داد رسی کے اس آپشن کو ویلکم کرتے ہیں۔ بہر حال آپ کو یہ حق احتیاط سے دینا ہوگا۔کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی،

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کی استدعا منظور کرلی

تحریک انصاف کی صوبائی رکن فرح کی آڈیو سامنے

عابد زبیری نے مبینہ آڈیو لیک کمیشن طلبی کا نوٹس چیلنج کردیا

آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کر دیا

 مقدمات کا حتمی ہونا، درستگی اور اپیل کا تصور اہم ہے

Shares: