دو دن قبل امارتی وزیر خارجہ دوڑے دوڑے پاکستان آئے تو ہم سمجھے تھے کہ شاید کشمیر کا غم انہیں لے آیا ہے چلیں دیر آید درست آید لیکن سفارتی ذرائع نے ہماری خوش فہمی دور کر دی کہ وہ موصوف تو اپنی حکومت کا پیغام لائے تھے”پاکستان کشمیر کو امت مسلمہ کا مسئلہ نہ بنائے”
یادش بخیر 5 اگست کو جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا شرمناک فیصلہ سنایا تب دہلی میں کھڑے ہوکر امارتی سفیر نے کہا تھا کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے،آرٹیکل 370 ختم کرنے سے کشمیر میں بہتری آئے گی،دہلی میں متعین امارتی سفیر ڈاکٹر احمد نے کھل کر مودی حکومت کے فیصلے کی حمایت کیا تھا حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب بھارت کی صف میں کھڑے ممالک کا رد عمل بھی انتہائی محتاط تھا.
جب کہ اس سے قبل او آئی سی کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بھی امارات نے ہی بلایا تھا،امارات کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف کیوں ہے اس حوالے سے میری ایک مستقل پوسٹ موجود ہے میرے پیج پر آپ جا کر آرام سے پڑھ سکتے ہیں.
سر دست اس پوسٹ میں ایک اور پہلو پہ بات کرنی ہے وہ یہ کہ امارات کے اس افسوس ناک رویے کے بعد ہمارے کچھ جذباتی لوگ دلبرداشتہ ہو کر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہمیں سوکولڈ امت کے تصور سے اب باہر آنا چاہئے،ہمیں مسلم ورلڈ کے بخار و خمار کو اتار پھینکنا چاہئے،کشمیر ہمارا مسئلہ ہے ہمیں اس مسئلے کو لیکر عیاش شیخوں کے در پر جا کر مزید ذلیل نہیں ہونا چاہئے.وغیرہ وغیرہ ‘
سوال یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف پاکستان ہندوستان کا علاقائی مسئلہ ہے یا پھر ڈیڑھ ارب مسلمانوں، 60 سے زائد اسلامی ملکوں کا بھی اس مسئلے سے کچھ لینا دینا ہے؟ اگر دینی تاریخی اور اخلاقی اعتبار سے دیکھا جائے تو کشمیر امت کا مسئلہ ہے حاضر تاریخ میں اگر کشمیر امت مسلمہ کا مسئلہ نہیں ہے تو پھر سمجھیں کہ کوئی دوسرا مسئلہ بھی امت کا نہیں ہے،پاکستان جس کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا کشمیری بھی اسی نسبت سے پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں چنانچہ اس نعرے پر وہ ایک لاکھ شہداء پیش کر چکے ہیں کہ پاکستان سے رشتہ کیا
لا الہ الا اللہ
اگر کشمیر امت مسلمہ کا مسئلہ نہیں تو او آئی سی کا وجود بے معنی،اگر کشمیر امت کا مسئلہ نہیں تو کشمیر پر او آئی سی کے اب تک کے درجنوں اجلاس چہ معنی دارد؟ اگر کشمیر امت مسلمہ کا مسئلہ نہیں تو ستر اسی اور نوے کی دہائی میں خانہ کعبہ میں کشمیر کے لئے دعاؤں کا کیا مقصد؟ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر دونوں امت کے لئے ایک طرح کے مسئلے ہیں،کشمیر میں بھی فلسطین ماڈل پر کام ہو رہا ہے،دونوں کے قاتل ہاتھ ملا چکے ہیں،دونوں جگہ مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے.عرب دنیا کے حکمران اپنی عاقبت نا اندیشی میں کچھ بھی کہیں لیکن عرب دنیا کی یونیورسٹیوں میں "حاضر العالم الإسلامي و قضاياه المعاصرة” میں اب بھی مسئلہ کشمیر پڑھایا جاتا ہے،حکومتیں،بادشاہتیں اور اقتدار سدا نہیں رہیں گے لیکن جن دلوں میں ایمان کی شمعیں روشن ہیں وہ بھلا کشمیر میں جاری مظالم پر کرب کیسے محسوس نہیں کریں گے،وہ کیسے نہیں تڑپیں گے؟
کشمیر امت کا مسئلہ تھا اور ہے،کسی حکمران حکومت اور بادشاہ کو اختیار نہیں کہ اقتدار کے نشے میں مست ہو کر اس مسئلے کو نقصان پہنچائے اور تاریخ میں اپنا نام سیاہ حروف میں لکھوائے،اللہ کی عدالت میں اور امت کے کل کی عدالت میں وہ مجرم بن کر کٹہرے میں ہوگا. ہمارے ہی عہد حاضر میں مغربی عیسائی ممالک نے دباؤ اور اثر و رسوخ استعمال کرکے جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور آزاد کروا کر عیسائی ریاستیں بنوائی بعینہ مسلم ممالک کو کشمیر کے لئے آگے آنا ہوگا.
پاکستانی وزیر خارجہ کے مطابق بہت جلد کشمیر کی تازہ ترین صورتحال پر او آئی سی کا اجلاس طلب کیا جائے گا دیکھنا یہ ہے کہ اس اجلاس میں کون سا اسلامی ملک مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہو کر سرخرو ہوتا ہے اور کون سے ملک کے حکمران قاتل مودی کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنے زوال اور دنیا و آخرت کی رسوائی خریدتے ہیں. ہاں ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم قنوطیت اور مایوسی سے نکل کر رب تعالی کی اس کائنات میں اپنی مسئولیت اور ذمہ داری سے عہدہ براں ہوں،ہم باد نیسم کے جھونکے کی طرح خوشبو کا امید کا اور فتح کا پیغام دیتے جائیں.
کتابِ مِلّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
ربود آں تُرکِ شیرازی دلِ تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بُوئے گُل سے اپنا ہمسفر پیدا
اگر "کشمیریوں” پر کوہِ غم ٹُوٹا تو کیا غم ہے
کہ خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
تحریر از فردوس جمال