جو دن گزر گۓ ہیں ترے التفات میں ،میں ان کو جوڑ لوں کہ گھٹا دوں حیات میں ؟

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوۓ ہیں دستانے
0
100
poet

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

ممتاز شاعر مصطفٰی زیدی

نام سید مصطفی حسین زیدی اور تخلص زیدی تھا۔ شروع میں تیغ الہ آبادی تخلص کرتے تھے۔10 اکتوبر 1930ء کو الہ آباد میں پیدا ہوئے۔اوائل طالب علمی ہی سے شاعری کا شوق پید ا ہوگیا تھا۔انٹرمیڈیٹ اور بی اے کے امتحانات امتیاز کے ساتھ پاس کیے۔ ایم اے (انگریزی) کا امتحان 1952ء میں گورنمنٹ کالج، لاہور سے پاس کیا۔ دوران تعلیم ان کی غیر معمولی قابلیت کے اعتراف میں انھیں کئی گولڈ میڈل اور تمغے ملے۔1956ءمیں سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہوئے۔مختلف شہروں میں ڈپٹی کمشنر رہے۔ حکومت پاکستان نے اعلی کارکردگی کے صلے میں انھیں’’تمغاے قائد اعظم ‘‘ عطا کیا۔12 اکتوبر 1970ء کراچی میں مصطفی زیدی کی اچانک موت کا سانحہ رونما ہوا۔ ان کا پہلا مجموعہ شاعری’’روشنی‘‘ کے نام سے قیام پاکستان سے قبل شائع ہوا ۔ان کے دیگرشعری مجموعوں کے نام یہ ہیں: ’زنجیریں‘، ’شہرآذر‘، ’موج مری صدف صدف‘، ’گریباں‘، ’قباے ساز‘، ’کوہ ندا‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوۓ ہیں دستانے
زیدی
۔۔۔۔۔۔
مصطفیٰ زیدی اور شہناز
مصطفیٰ زیدی جب گوجرانوالہ آئے تو یہیں ان کی ملاقات شہناز سے ہوئی شہناز گُل ۔۔۔۔۔ وہ پری وش جو مصطفےٰ زیدی کی زندگی کے آخری ایام میں اس کی تنہائیوں کی رفیق اور زندگی کے آخری پُر اسرار لمحوں کے رازوں کی امین تھی-

یحییٰ خان کا زمانہ تھا۔ جس نے اسکریننگ کر کے 303 افسران کو بیک جنبش قلم ملازمتوں سے فارغ کر دیا تھا۔ زیدی بھی اس کا نشانہ بن گئے۔ افسر شاہی ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ جرمن بیوی ویرا زیدی اور دونوں بچے جرمنی میں تھے، پاسپورٹ سرکار نے ضبط کر رکھا تھا، ایسے عالم میں ماسٹر ٹائر اینڈ ربر فیکٹری کے مالک فیاض ملک نے آگے بڑھ کر دوستی کا حق ادا کر دیا اور اپنے بنگلے کی انیکسی مصطفی زیدی کو رہائش کے لیے دے دی۔ اسی انیکسی میں ان کی ملاقاتیں ایک عرصے تک تو شہناز گل سے جاری رہیں، لیکن بعد میں یہ سلسلہ بوجوہ آگے نہ بڑھ سکا۔

ایک دن مصطفی زیدی نے حبیب بینک پلازہ کے سگنل پر رکی ایک کار میں دیکھا کہ ان کی محبوبہ شہناز گل معروف صنعت کار آدم جی پیر بھائی کے ساتھ بیٹھی ہے۔ مصطفی زیدی جیسا حساس اور زودرنج شاعر اس نظارے کو برداشت نہ کر سکا، وہ تو سمجھتا تھا کہ شہناز گل اس کی محبت میں گرفتار ہے، اس کی چاہتوں کی اسیر ہے،مصطفیٰ زیدی کی لاش 12 اکتوبر 1970ء کو کراچی کے ان کے دوست کے بنگلے سے ملی تھی جبکہ شہناز گل بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔

(کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ زیدی مردہ حالت میں ہوٹل سمار کے ایک کمرے میں پائے گئے تھے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ ان کی لاش ان کے دوست کے بنگلے سے ملی تھی۔ اس میں تضاد ہے)

جس پر بعد میں تحقیقاتی کمیشن بھی بنا تھا اور مقدمہ بھی عدالت میں گیا تھا۔ یہ مقدمہ اخبارات نے اس قدر اچھالا کہ مہینوں تک اس پر دھواں دھار بحث ہوتی رہی۔ ان دنوں ہمارے اخبارات اچانک ہی بالغ ہو گئے تھے کیونکہ عدالت میں شہناز گل کے دیئے گئے بیانات نے بہت سے لوگوں کو اپنے گھر آنے والے اخبارات کو روکنا پڑا تھا

اور ہفت روزہ چٹان میں شورش کشمیری کو ایک نظم لکھنا پڑی تھی جس کے اس ایک شعر سے اس نظم کے موڈ کا اندازہ لگانا مشکل نہ ہو گا۔

بانجھ ہو جائیں زمینیں, بیٹیاں پیدا نہ ہوں
یا خدا شہناز گل سی, بیبیاں پیدا نہ ہوں

رضا علی عابدی نے مصطفی زیدی کے ساتھ نیم مردہ حالت میں پائی جانے والی خاتون شہناز کا احوال بھی اپنے دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ پہلے یہ خبر بطور ایک چھوٹی خبر موصول ہوئی کہ ایک سرکاری افسر نے خودکشی کرلی ہے، جب خبر پھیلی کہ متوفی مصطفی زیدی ہیں تو تمام اخبارات اس خبر کی تفصیل کے پیچھے پڑ گئے اور بقول عابدی صاحب ایسی ایسی داستانیں نکال کر لائے کہ مصطفی زیدی اگر اس وقت بچ جاتے تو اب مر جاتے۔

عدالت میں حریت کے فوٹو گرافر نے شہناز گل کی ایک قد آدم تصویر کھینچ لی۔ رضا علی عابدی بیان کرتے ہیں کہ اس واقعے کے کافی عرصے کے بعد افتخار عارف نے ایک تقریب میں شہناز گل سے کہا کہ ’ابھی تو آپ پر دس بیس شاعر اور قربان ہوسکتے ہیں عدالت نے طویل رد و کد کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ قتل نہیں بلکہ خودکشی تھی اور شہناز گل کو بری کر دیامصطفی زیدی کی وفات کا دکھ ادبی حلقوں ہی میں نہیں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں محسوس کیا گیا۔

جوش ملیح آبادی نے اس سانحے پر کہا "زیدی کی موت نے مجھ کو ایک ایسے جواں سال اور ذہین رفیق سفر سے محروم کر دیا جو فکر کے بھیانک جنگلوں میں میرے شانے سے شانہ ملا کر چلتا اور مسائل کائنات سلجھانے میں میرا ہاتھ بٹایا کرتا”

وہ کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں ۔

مصطفی زیدی نے خود ہی کہا تھا کہ

"میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے”

شہناز گل کے لیے مصطفیٰ زیدی نے کئی غزلیں اور نظمیں کہی تھیں جن میں یہ غزل بہت مشہور ہے:

فن کار خود نہ تھی ،مرے فن کی شریک تھی
وه روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی
اُترا تھا جس پہ باب حیا کا ورق ورق
بستر کے ایک ایک شکن کی شریک تھی
میں اک اعتبار سے آتش پرست تھا
وه سارے زاویوں سے چمن کی شریک تھی
وه نازشِ ستاره و طَنّازِ ماہتاب
گردش کے وقت میرے گہن کی شریک تھی
وه ہم جليسِ سانحہ ء زحمتِ نشاط
آسائشِ صلیب و رسن کی شریک تھی
ناقابل بیان اندھیرے کے باوجود
میری دُعائے صبحِ وطن کی شریک تھی
دُنیا میں اک سال کی مدت کا قُرب تھا
دل میں کئی ہزار قرن کی شریک تھی

یہ نظم کراچی کے ہوٹل سمار میں لکھی گئی یہ وہی ہوٹل ہے جس کے ایک کمرے میں مصطفےٰ زیدی مردہ پائے گئے تھے

"شہناز(5)”
جس طرح ترک تعلق پہ ہے اصرار اب کے
ایسی شدت تو میرے عہد وفا میں بھی نہ تھی
میں نے دیدہ و دانستہ پیا ہے وہ زہر
جس کی جرات صف تسلیم و رضا میں بھی نہ تھی
تو نے جس لہر کی صورت سے مجھے چاہا تھا
ساز میں بھی نہ تھی وہ بات، صبا میں بھی نہ تھی
بے نیاز ایسا تھا میں دشت جنوں میں کھو کر
مجھ کو پانے کی سکت ارض و سما میں بھی نہ تھی
اور اب یوں ہے کے جیسے کبھی رسم اخلاص
مہ نشینوں میں تو کیا، ہم فقیروں میں بھی نہ تھی
بے وفائی کی یہ مشترکہ نئی آسائش
دل پرخون میں بھی اور رنگ حنا میں بھی نہ تھی
نہ تو شرمندہ ہے دل اور نہ حنا خوار اب کے
جس طرح ترک تعلق پہ ہے اصرار اب کے

ہوٹل سمار، کراچی 22 ستمبر 1970

"شہناز”
خود کو تاراج کرو
زندگیاں کم کر لو
جتنا چاہو دل شوریدہ
کا ماتم کر لو
تاب وحشت کسی صحرا
کسی زنداں میں نہیں
اِس قدر چارہ گری
وقت کے امکاں میں نہیں
خاطر جاں کے
قرینے تو کہاں آئیں گے
صرف یہ ہو گا کہ
احباب بچھڑ جائیں گے
گھر جو اُجڑے تو
سنورتے نہیں دیکھے اب تک
ایسے ناسُور تو
بھرتے نہیں دیکھے اب تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو دن گزر گۓ ہیں ترے التفات میں
میں ان کو جوڑ لوں کہ گھٹا دوں حیات میں ؟

کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی مرے واقعات میں

میرا تو جرم تذکرہء عام ہے مگر
کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہات میں

آخر تمام عمر کی وسعت سما گئی
اک لمحہء گزشتہ کی چھوٹی سی بات میں

اے دل ذرا سی جراتِ رندی سے کام لے
کتنے چراغ ٹوٹ گۓ احتیاط میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے
غم دل مرے رفیقو ، غم رائیگاں نہیں ہے

کوئی ہم نفس نہیں ہے ، کوئی رازداں نہیں ہے
فقط اک دل تھا اب تک سو وہ مہرباں نہیں ہے

مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

کسی آنکھ کو صدا دو ، کسی زلف کو پکارو
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے

انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کہیں کہکشاں نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہونٹوں کا ماہ تاب ہیں ، آنکھوں کے بام ہیں
سر پھوڑنے کو ایک نہیں سو مقام ہیں

تم سے تو ایک دل کی کلی نہ کھل سکی
یہ بھی بلا کشانِ محبت کے کام ہیں

دل سے گزر خدا کے لیے اور ہوشیار
اس سرزمیں کے لوگ بہت بدکلام ہیں

تھوڑی سی دیر صبر کہ اس عرصہ گاہ میں
اے سوزِ عشق ، ہم کو ابھی اور کام ہیں

تم بھی خدا سے سوزِ جنوں کی دعا کرو
ہم پر تو اِن بزرگ کے احسان عام ہیں

وہ کیا کرے جو تیری بدولت نہ ہنس سکا
اور جس پہ اتفاق سے آنسو حرام ہیں

اپنے پہ آ پڑیں تو نۓ پن کی حد نہیں
جو واقعات سب کی حکایت میں عام ہیں

منعم کا تو خدا بھی امیں ، بت بھی پاسباں
مفلس کے صرف تیغ علیہ السلام ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ گُھٹا گُھٹا طوفاں ، یہ تھمی تھمی بارش رُوبُرو نہ رہ جائے
آج اس طرح رولے ، جس کے بعد رونے کی آرزو نہ رہ جائے

دوستو گلے مل لو ، ساتھیوں کی محفل میں دو گھڑی کو مل بیٹھو
اس خلوص کی شاید میرے بعد دنیا میں آبرو نہ رہ جائے

صبح و شام کی الجھن ، رات دن کے ہنگامے روز روز کا جھگڑا
دیکھ پیر میخانہ آج میں نہ رہ جاؤں یا سبو نہ رہ جائے

اپنا غم نہ اس کا اس کا غم ڈوبتی ہوئی لَو کو فکر ہے تو اس کی ہے
دربدر نہ رسوا ہو حسرتوں کا افسانہ کو بہ کو نہ رہ جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا
دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا

قُلزُم نے بڑ ھ کے چو م لئے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا

اِک موجِ خونِ خَلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اِک طو قِ فردِ جرم تھا ،کس کے گلے میں تھا

اِک رشتہ ءِ وفا تھا سو کس ناشناس سے
اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا

صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھیے جو مزا ٹوٹنے میں تھا

کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا

تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے تھا

Leave a reply