بریکنگ،سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی قرار دے دیا

supreme court

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ،عدالت نے محفوظ فیصلہ سنا دیا،

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس پر فیصلہ جاری کردیا ،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ 4 صفحات پر مشتمل ہے،سپریم کورٹ نے دس پانچ کی تناسب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو آئین کے مطابق درست قرار دیام تحریری حکم میں کہا گیا کہ پانچ ججز نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو آئین کے مخالف قرار دیا ، 184 تین کے مقدمات میں اپیل کے حق دیاجانا آئین کے مطابق درست ہے،آٹھ سات کے تناسب سے اپیل کے حق کو ماضی سے اطلاق کو غیر آئینی قرار دیدیا،

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی قرار دے دیا،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کر دی گئیں،سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخوستیں خارج کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ایکٹ برقرار رہے گا کچھ شقوں کو ختم کیا گیا ہے،سپریم کورٹ نے ایکٹ کی ماضی سے اطلاق کی شق 7/8 سے مسترد کردی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سب کا شکریہ سب نے معاونت کی،فیصلہ ٹیکنکل تھا، ٹائم لگا،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سُپریم کورٹ کا فیصلہ 10/5 سے ہے،جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک نے فیصلے سے اختلاف کیا،تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردیا جائے گا

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی قرار دے دیا، پارلیمنٹ کی قانون سازی کو درست قرار دیدیا

کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کے اکثریتی آٹھ ججز نے ماضی سے اپیلوں کے اطلاق کی شق کو کالعدم قرار دیا ہے اس وجہ سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں اپیلوں کا اطلاق ماضی پے لاگو نہیں ہو گی اس کے علاؤہ ایکٹ آج سے مکمل بحال ہو گیا،سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے کے مطابق پانامہ و دیگر فیصلوں کے خلاف اپیلیں فائل نہیں ہو سکیں گی پہلے ایکٹ میں یہ حق دیا گیا تھا کہ ماضی کے فیصلوں کے خلاف بھی اپیلیں فائل ہو سکتی تھیں

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی کاروائی مکمل ہو گئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر اتفاق رائے ہوا تو آج ہی فیصلہ سنایا دیں گے، سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی،اٹارنی جنرل روسٹرم پرآگئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دوں گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں آپ سب باتیں دہرائیں گے نہیں ہائی لائٹ کریں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا،تین سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا،سپریم کورٹ رولز بننے کے بعد ایکٹ آف پارلیمنٹ کا راستہ روکا نہیں جا سکتا، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہاگر سپریم کورٹ کو رولز بنانے کی اتھارٹی نہیں دینی تھی تو آرٹیکل 191 کا مقصد ہی کیا ہے؟ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ قانون سازی کا اصل مقصد آرٹیکل 184/3 تھا، جو مسئلہ تھا اسے ٹھیک کرتے پورے سسٹم کو کیوں اوپر نیچے کر دیا؟ سپریم کورٹ پورا ادارہ اور ٹائی ٹینک ہے ایک دم کیسے ادھر اُدھر موڑا جا سکتا ہے؟ غلطیاں اگر عدالت سے ہوئی ہیں تو پارلیمان اپنی طرف بھی دیکھے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آئین میں گنجائش ہے کہ بنچز بنانے کا اختیار کسی ایک کو دیا جائے؟ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ بنچ کون بنائے گا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ پارلیمان نے تو ایک متفرق درخواست تک کے حوالے سے قانون بنا لیا،ہارلیمان کو جو مسئلہ تھا اسے حل کرتے، نتائج دیکھ کر پھر مزید قانون سازی ہوسکتی تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ کئی کئی مہینوں تک مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوتے تھے،قانون سازی کا مقصد صرف ماسٹر آف روسٹرز نہیں تھا،

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی،آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے،سنگین غداری قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گی ،اان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے، آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمان سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لیتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں لفظ لاء 200 سے زیادہ بار آیا ہے، آپ کہہ رہے ہیں جہاں بھی یہ لفظ لکھا وہ ایک تناظر میں دیکھا جائے گا،یہ ‘ون سائز فٹ آل’ والا معاملہ نہیں ہے،جہاں بھی یہ لفظ لکھا ہے اس کی نوعیت الگ ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! آرٹیکل 191 میں صرف لاء کا لفظ نہیں، یہ سبجیکٹ ٹولاء لکھا ہے،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لاء کا لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا ہے، پارلیمان نے آئین کو جاندار کتاب کے طور پر بنایا ہے کہ جو وقت پڑنے پر استعمال ہو سکے، آئین میں کہاں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے بھی قانون ہونگے؟ عدالتی فیصلوں کی پابندی اور ان پر عملدرآمد ضروری ہے،جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک دم سے ساری چیزیں اوپر نیچے کرنا پارلیمنٹ کے لیے ٹھیک نہیں تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دنیا ساتھ مل کے چلتی ہے، پارلیمنٹ ہماری دشمن نہیں ہے نہ ہم پارلیمنٹ کے دشمن ہیں ہم مل کے چل سکتے ہیں اداروں کو لڑانے کی کوشش نہ کریں ، آپ آئین پر فوکس رکھیں،

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت وفاقی حکومت کا جواب چاہتی ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر پر عملدرآمد لازمی ہے یا نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر عملدرآمد لازمی ہے،ججز کے حلف میں لکھا ہے کہ قانون کے پابند ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں پارلیمان نے سپریم کورٹ کی عزت کی اور رکھی، آج ہی اگر ہر چیز کا جواب دے دیں گے تو کل کو یہی کیسز آ گئے تو ہم ان آبزرویشنز کے پابند ہوں گے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ہم سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر پر عمل نہیں کریں گے تو کیا اپنے حلف کی خلاف ورزی کریں گے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمان سے منفی چیزیں کیوں منسوب کی جائیں؟اداروں کو نہ لڑائیں میں تو کہوں گا جیو اور جینے دو، اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کی روایات بھی آئین میں تسلیم شدہ ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئینی روایات ہر اُس ملک میں تسلیم شدہ ہیں جہاں تحریری آئین بھی موجود ہے، آئینی اور قانونی روایات میں تضاد ہو تو آئینی روایت کو ترجیح دی جائے گی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 189 کے تحت کسی صورت روایات ماننے کے پابند نہیں ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ماسٹر آف روسٹر کا لفظ دنیا میں سب سے پہلے کہاں استعمال ہوا؟ کیا انگلستان یا امریکہ میں ماسٹر آف روسٹر کا لفظ استعمال ہوتا ہے یا ہماری ایجاد ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ماسٹر کا لفظ سکول میں ہم سنتے تھے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اب فل کورٹ بیٹھی ہوئی ہے وہ اس حوالے سے تعین کر لے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا اسلام میں ماسٹر آف روسٹر کا کوئی تصور موجود ہے؟اگر کلونیل سسٹم پر چلنا ہے تو آزادی لینے کا کیا فائدہ ہے؟ ماسٹر تو صرف اللہ تعالی کی ذات ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بعد ماسٹر آف روسٹرز کمیٹی ہوگی، ماسٹر آف روسٹر وہی کام کرے گی جو چیف جسٹس کرتا ہے، کیا کلونیل ہے کیا نہیں اس بحث میں نہ جائیں، ایک جج کے ہاتھ میں اختیار نہیں دینا تو تین کو کیوں ؟ چودہ ججز کو ایک جج کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا تو 12 کو تین کر کیسے چھوڑا جائے؟ اگر ماضی میں کسی چیف جسٹس نے اختیار فل کورٹ کو نہیں دیا تو آپ دیدیں،

اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ سپریم کورٹ نے سٹیل مل کی نجکاری کالعدم قرار دینے کے بعد کرپشن پر ازخودنوٹس لیا، جب ازخودنوٹس لیا تو سٹیل ملز منافع میں تھی،سوموٹو کے بعد اب تک سٹیل ملز 206 ارب کا نقصان کر چکی ہے، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اس کارروئی کو سپریم کورٹ کیخلاف چارج شیٹ نہیں بنایا جا سکتا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سٹیل ملزم کیس کا موجودہ کیس سے کیا تعلق ہے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا قانون سازی کے وقت پارلیمان میں یہ بحث ہوئی تھی؟ ابھی تک پارلیمان میں بحث کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ کیا آپ مولوی تمیز الدین سے ریکوڈک تک سپریم کورٹ کو چارج شیٹ کرنا چاہتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسٹیل مل کا نقصان 30 جون 2022 تک اب تک 206 ارب روپے ہو چکا،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے ایکشن سے یہ سب ہوا، ہم سچ سننے سے ڈرتے کیوں ہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اطلاق قانون بننے کے دن سے ہوگا یا ماضی سے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کے مطابق اس کے اطلاق کی کوئی حد نہیں ہے، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اگر آرٹیکل 184 میں پارلیمنٹ کو لگا کہ اپیل دیں تو آرٹیکل184/1 میں کیوں نہیں دی گئی؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ظاہری طور پر آپ کی دلیل مان لیں تو پارلیمنٹ ایک کے بجائے کئی اپیلوں کا حق دے سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان میں فاٹا کے علاقوں تک ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کو بڑھایا گیا تھا،ہائیکورٹس کے دائرہ اختیار کو بڑھانے کے لیے اس حد تک قانون سازی ممکن ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اپیل کے ذریعے پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار بڑھایا گیا جو کہ ممکن نہیں ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جن مقدمات میں نظرثانی پر فیصلہ ہوچکا کیا ان میں اپیل ممکن نہیں ہوگی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی نظرثانی اور اپیل ایک ساتھ دائر کرے تو کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرثانی خارج ہونے کے بعد اپیل دائر ہو توعدالت کیس کا جائزہ لے گی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو کیس کی مثال دینا چاہوں گا،بھٹو کیس میں سزا ہوئی، نظرثانی میں اختلافی رائے دینے والوں نے بھی فیصلے کی حمایت کی،اگر اپیل کا حق ہوتا تو شاید نتیجہ کچھ اور ہوتا،نظرثانی خارج ہونے سے اپیل کا حق ختم نہیں ہوتا، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ بھٹو کیس سپریم کورٹ نے اپیل میں سنا تھا 184/3 میں نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں،

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمار کس دیتے ہوئے کہا کہ میرا سوال بہت سادہ ہے جس کا جواب نہیں ملا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر آپ آرٹیکل 185(2) پڑھ لیں تو شاید جواب مل جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیڈرل شریعت کورٹ بنی تو دیگر عدالتوں سے اختیارات واپس لیے گئے تھے، اعلی عدلیہ کے کچھ اختیارات لیکر شریعت کورٹ کو دیے گئے، اسلام میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا کوئی تصور نہیں ہے،سپریم کورٹ سے کوئی اختیار چھینا نہیں جا رہا بلکہ مزید دیا جا رہا ہے، آمر نے اختیار واپس لیا تو سب خاموش ہوگئے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ چیف صاحب کا سوال ہوگیا ہے تو میرا سوال بھی لے لیں،آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی پارلیمان ہی کر سکتی ہے،قانون میں وقت کیساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے، کیا قانون سازی کیلئے دو تہائی اکثریت ہونے کی شرط ختم نہیں ہوگئی؟ شاید آپ کے دلائل میں نے دے دیئے ہیں،

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ہاتھ باندھے جا رہے ہیں کہ 7 رکنی سے لارجر بنچ نہ بن سکے،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ کیا سپریم کورٹ قانون میں دیا گیا اپیل کا حق اپنے طور پر ختم کرسکتی ہے؟ ہر سوال پر کہا جاتا ہے پارلیمان کی دانش پر بات نہیں ہوسکتی، پارلیمان کی دانش کا سوال یہاں کیوں نہیں اٹھایا جا رہا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ کیس کے فیصلے کیخلاف بھی اپیل ہوئی تو کہاں ہوگی؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا کوئی درخواست گزار اپیل میں کہ سکتا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا فیصلہ غلط تھا؟ کوئی بھی عدالت انتظامی سطح پر قانونی حق ختم نہیں کر سکتی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تسلیم کرنا چاہتا ہوں کہ فل کورٹ بنانا میری غلطی تھی،جب آٹھ رکنی بنچ بنا تھا تب بھی اپیل کا یہی سوال اٹھنا تھا، کسی جج نے فل کورٹ پر اعتراض کیا نہ آٹھ رکنی بنچ پر، مفروضوں سے نکل کر بات کریں،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرا سوال مفروضے پر نہیں مستقبل کیلئے حقیقت پر ہے،

آئین ہماری اور پاکستان کی پہچان ، آئین کے محافظ ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف کیورواٹیو ریویو،اٹارنی جنرل چیف جسٹس کے چمبر میں پیش 

حکومت صدارتی حکمنامہ کے ذریعے چیف جسٹس کو جبری رخصت پر بھیجے،امان اللہ کنرانی

9 رکنی بینچ کے3 رکنی رہ جانا اندرونی اختلاف اورکیس پرعدم اتفاق کا نتیجہ ہے،رانا تنویر

چیف جسٹس کے بغیر کوئی جج از خود نوٹس نہیں لے سکتا،

 انصاف ہونا چاہیئے اور ہوتا نظر بھی آنا چاہیئے،

 عدالتوں میں کیسسز کا پیشگی ٹھیکہ رجسٹرار کو دے دیا جائے

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023
کسی بھی کیس کی سماعت کیلئے بنچ کی تشکیل کا فیصلہ 3 ججز پر مشتمل کمیٹی کرے گی ،کمیٹی میں چیف جسٹس اور دو سینئر موسٹ ججز شامل ہوں گے ، کمیٹی کی اکثریت کا فیصلہ تسلیم کیا جائے گا ،آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت کوئی بھی کیس از خود نوٹس کیلئے کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا ،معاملہ عوامی نوعیت کا ہونے اور قابل سماعت ہونے پر بینچ تشکیل دیا جائے گا ، معاملہ کی سماعت کے لئے بنچ کم سے کم 3 رکنی ہو گا ،تشکیل کردہ بنج میں کمیٹی سے بھی ججز کو شامل کیا جاسکے گا ،از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 روز میں اپیل دائر کی جاسکے گی ،14 روز میں اپیل کی سماعت کے لئے لاجر بنچ تشکیل دیا جائے گا ،اپیل کرنے والے فریق کو مرضی کا وکیل مقرر کرنے کا حق حاصل ہوگا،کسی بھی کیس کی جلد سماعت یا عبوری ریلیف کی درخواست کو 14 روز میں سماعت کے لئے مقرر کیا جائے گا ،قانون کی منظوری سے قبل ہونے والے از خود نوٹسز کے فیصلوں پر بھی اپیل کا حق ہوگا ،آئین کی تشریح کے مقدمات کی سماعت کے لئے پانچ سے کم ججز پر مشتمل بینچ تشکیل نہیں دیا جائے گا

Comments are closed.