اداکارہ و گلوکارہ مسرت نذیر کا یوم پیدائش

آغا نیاز مگسی

چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ

مسرت نذیر کا پورا نام مسرت نذیر خواجہ 13 اکتوبر 1940 کو لاہور میں پیدا ہوئی آجکل کینیڈا میں مقیم پاکستانی گلوکارہ اور فلمی اداکارہ ہیں، جنہوں نے بہت ساری اردو اور پنجابی فلموں میں اداکاری کی۔ مسرت نذیر کے شادی بیاہ کے پنجابی نغمات لوک گیت زبان زدعام ہیں۔ مسرت نذیر کے والدین کشمیری نژاد پنجابی تھے۔ ان کے والد خواجہ نذیر احمد، لاہور میونسپل کارپوریشن میں رجسٹرڈ ٹھیکیدار کے طور پر کام کرتے تھے۔
مسرت نذیر کی زندگی کے اوائل میں، ان کے والدین چاہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر بنیں، اور انھیں بہترین تعلیم فراہم کی جس کی ۔ مسرت نے میٹرک کا امتحان (دسویں جماعت) امتیازی کے نمبروں ساتھ پاس کیا اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان (بارہویں جماعت) لاہور کے کنیئرڈ کالج سے پاس کیا۔

ان کی شادی ڈاکٹرارشد مجید سے ہوئی ہے اور وہ 1965 ء سے کینیڈا میں مقیم ہے مسرت نذیر کے تین بچے ہیں۔ مسرت نذیر نے اپنا فلمی کیریئر کو اپنے شوہر کے لئے ترک کردیا جو اس وقت ان کا کیریئر عروج پر تھا اور اس کے ساتھ کینیڈا جانے پر راضی ہوگئیں ۔
مسرت نذیر اور ارشد مجید 1970 ءکی دہائی کے آخر میں پاکستان واپس آکر لاہور میں آباد ہونا چاہتے تھے۔ بمطابق 2005ء، ارشد مجید لاہور میں ایک اسپتال قائم کرنا چاہتے تھے اور وہ اس مقصد کے لئے وہاں ایک مکان خرید چکے تھے جو ان کے پاس ہے اور وہ ابھی تک برقرار رکھا ہے۔ بہت پیسہ خرچ کرنے، مہینوں کی جدوجہد کے بعد، ارشد مجید نے ہار مانی۔

ایک مختصر عرصہ میں سپرسٹار ہیروئن کا درجہ پانے اور اپنے عین عروج کے دور میں فلمی دنیا کی چکا چوند روشنیوں کو خیرآباد کہہ دینے والی مسرت نذیر ، ایک ناقابل فراموش اداکارہ تھی۔۔!
مسرت نذیر کو گائیکی کا شوق تھا لیکن فلمساز اور ہدایتکار انورکمال پاشا نے اسے فلم قاتل (1955) میں وقت کی مقبول ترین اداکارہ صبیحہ خانم کے مقابل سائیڈ ہیروئن کے طور پر متعارف کروایا تھا۔ نیرسلطانہ ، اسلم پرویز اور گلوکار سلیم رضا کی بھی یہ پہلی پہلی فلم تھی جو اپنی جملہ خوبیوں کے علاوہ اقبال بانو کی مشہور زمانہ غزل "الفت کی نئی منزل کو چلا۔۔” کی وجہ سے یادگار فلموں میں شمار ہوتی ہے۔

اپنی دوسری ہی فلم
پتن (1955) میں مسرت نذیر کو بریک تھرو مل گیا تھا۔ یہ ایک سپرہٹ پنجابی فلم تھی جس میں مسرت نذیر کی جوڑی پاکستانی فلموں کے دوسرے سپرسٹار ہیرو سنتوش کے ساتھ تھی۔ اس فلم میں زبیدہ خانم کا یہ گیت "چھڈ جاویں نہ چناں بانہہ پھڑ کے۔۔” پہلا سپرہٹ گیت تھا جو مسرت نذیر پر فلمایا گیا تھا۔ اسی فلم میں بابا چشتی کے کمپوز کئے ہوئے دو بڑے اعلیٰ پائے کے دوگانے بھی تھے جنہیں زبیدہ خانم اور عنایت حسین بھٹی نے گایا تھا اور وہ مسرت نذیر اور سنتوش پر فلمائے گئے تھے "ساڈا سجرا پیار ، کوے بار بار ، کیتے ہوئے قرار بھل جاویں نہ۔۔” اور "بیڑی دتی کھیل اوئے ، محبتاں دا میل اوئے ، رب نے ملایا ساڈا پتناں تے میل اوئے۔۔”
اسی سال مسرت نذیر نے مشہورزمانہ فلم پاٹے خان (1955) میں میڈم نورجہاں اور زبیدہ خانم کے ساتھ ایک معاون اداکارہ کے طور پر کام کیا تھا اور اس پنجابی فلم میں اردو بولی تھی۔ میڈم نورجہاں کے گائے ہوئے دو اردو گیت "جان بہار ، آیا تیرے آنے سے رت پہ نکھار۔۔” اور "دوراہی رستہ بھول گئے ، رنگ بدل گیا افسانے کا۔۔” مسرت نذیر پر فلمائے گئے تھے۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
ہم نے ریاست کو بچانے کے لیے اپنی سیاست کا نقصان کیا. شہباز شریف
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مذمتی قرارداد
حماس کے حملے کی تعریف کرنے پر اسرائیلی بچہ گرفتار
شہر چھوڑ دیں،جب تک کہا نہ جائے، کوئی واپس نہ آئے، اسرائیل نے غزہ میں پمفلٹ گرا دیئے
1956ء میں اپنے دوسرے ہی سال میں مسرت نذیر ، ایک چوٹی کی اداکارہ بن چکی تھی۔ اس سال اس کی چھ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ پنجابی فلم ماہی منڈا (1956) میں مسرت نذیر نے پہلی بار ٹائٹل رول کیا جس میں ہیرو ، پاکستان کے پہلے سپرسٹار اور سب سے کامیاب اور مقبول ترین فلمی ہیرو سدھیر تھے۔ یہ فلم عنایت حسین بھٹی کے مشہور زمانہ گیت "رناں والیاں دے پکن پرونٹھے۔۔” کی وجہ سے مشہور تھی جو اداکار ظریف پر فلمایا گیا تھا۔ مسرت نذیر پر فلمایا گیا زبیدہ خانم کا یہ گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا "وے میں نار پٹولے ورگی ، مینوں اکھ دی پٹاری وچ رکھ وے۔۔” سدھیر ہی کے ساتھ مسرت نذیر نے فلم مرزا صاحباں (1956) میں ٹائٹل رولز کئے تھے لیکن یہ ایک ناکام فلم تھی۔

اسی سال کی ایک اور کامیاب فلم قسمت (1956) میں مسرت نذیر کے ہیرو سنتوش تھے لیکن سال کی سب سے بڑی گولڈن جوبلی اردو فلم باغی (1956) تھی جس نے سدھیر کو پاکستان کا پہلا ایکشن ہیرو بھی بنا دیا تھا۔ مسرت نذیر کی ایک اور اوسط درجہ کی فلم پینگاں (1956) میں بابا چشتی ہی کی دھن میں کوثرپروین کا گایا ہوا سب سے مقبول پنجابی گیت فلمایا گیا تھا "تینوں بھل گیاں ساڈیاں چاہواں تے اساں تینوں کی آکھناں۔۔” اس فلم میں ہیرو اسلم پرویز تھے جو اپنے دوسرے ہی سال میں سدھیر اور سنتوش کے بعد تیسرے مقبول ترین ہیرو بن گئے تھے۔
اس سال کی ایک اور یادگار فلم گڈی گڈا (1956) بھی تھی جو اپنی منفرد کہانی کی وجہ سے یادگار تھی۔ بچیوں کے کھیل میں گڑیوں کی شادی ہوتی ہے لیکن اصل نکاح ہیرو ہیروئن سے پڑھوا لیا جاتا ہے جس پر باقی فلم کی کہانی چلتی ہے۔ یہی کہانی معروف ناول نگار رضیہ بٹ کے ایک ناول ‘گڑیا’ کی بھی تھی۔ اس فلم میں بھی بابا چشتی کی دھن میں منورسلطانہ کا یہ گیت بڑا پسند کیا گیا تھا "او دلا کچیا ، قراراں دیا پکیا ، کسے دے نال گل نہ کریں۔۔” اس فلم کے دو اور گیت "نئیں ریساں شہر لہور دیاں۔۔” اور "بابل دا ویہڑا چھڈ کے ، ہوکے مجبور چلی ، گڈیاں پٹولے چھڈ کے ویراں توں دور چلی۔۔” بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔

1957ء میں مسرت نذیر کی کل سات فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ سال کی سب سے بڑی فلم یکے والی (1957) تھی جس کا بزنس ریکارڈ آج تک نہیں ٹوٹ سکا۔ معروف صحافی علی سفیان آفاقی کے مطابق اس فلم پر اس دور کا ایک لاکھ روپیہ لاگت آئی تھی اور کمائی 45 لاکھ روپے ہوئی تھی یعنی منافع کا تناسب پینتالیس گنا تھا جو آج تک کسی بھی فلم کے بزنس کا ایک ناقابل شکست ریکارڈ ہے۔ اسوقت ایک ڈالر تین سے چار روپے کا ہوتا تھا اور ایک روپیہ بہت بڑا سکہ ہوتا تھا۔ بات پیسوں اور آنوں میں ہوتی تھی اور ایک روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے۔ اس فلم کی کمائی سے باری سٹوڈیو بنا تھا جو 92 کنال اراضی پر محیط تھا۔ آج تک کسی فلم کی کمائی سے اتنی بڑا سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ اس فلم میں مسرت نذیر یکہ یا تانگہ چلاتی ہے اور نیلو اسے لڑکا سمجھ کر عاشق ہو جاتی ہے۔ روایتی ہیرو ، سدھیر تھے۔ بابا چشتی کا جادو سر چڑھ کر بولا تھا اور بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے جن میں "کلی سوای بھئی ، بھاٹی لوہاری بھئی۔۔” ، تیرے در تے آکے سجناں وے ، اسیں جھولی خالی لے چلے۔۔” ، ” ریشم دا لاچہ لک اوئے ، نالے بلیاں تے سجرا سک اوئے۔۔” ، "ہان دیا منڈیا وے اکھیاں چوں غنڈیا۔۔” قابل ذکر ہیں۔ یہ سبھی گیت پچاس کے عشرہ کی سب سے مقبول و مصروف گلوکارہ زبیدہ خانم نے گائے تھے۔

اسی سال کی فلم آنکھ کا نشہ (1957) میں مسرت نذیر نے عین شباب کے دور میں ینگ ٹو اولڈ رول کیا تھا اور اس فلم میں اپنی حریف اداکارہ صبیحہ خانم کی ماں کا رول کیا تھا۔ سدھیر ، ہیرو کے علاوہ فلمساز بھی تھے۔ فلمساز اور ہدایتکار انورکمال پاشا کے والد حکیم احمدشجاع کے ناول باپ کا گناہ (1957) کو اسی نام سے فلمایا گیا تھا۔ اس فلم میں درپن ، پہلی بار مسرت نذیر کے ہیرو بنے تھے۔ فلم ٹھنڈی سڑک (1957) میں پہلی بار کمال متعارف ہوئے تھے جن کی پہلی ہیروئن بھی مسرت نذیر ہی تھی۔ فلم سہتی (1957) میں مسرت نذیر کا ٹائٹل رول تھا اور پہلی بار ہیرو اکمل تھے جنہوں نے مراد کا رول کیا تھا۔ پیر وارث شاہؒ کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں ہیر کا رول نیلو اور رانجھے کا عنایت حسین بھٹی نے کیا تھا۔ دیگر دو فلمیں سیستان اور پلکاں (1957) میں مسرت نذیر کی پانچ فلمیں منظرعام پر آئیں۔ سال کی یادگار فلم جٹی (1958) تھی جسے ‘چٹی’ کے نام سے ریلیز کیا گیا تھا کیونکہ جٹ برادری نے فلم کے نام پر اعتراض کیا تھا۔ یہ بھی فلم یکے والی (1957) کی طرز پر بنائی گئی تھی جس میں زبیدہ خانم کا گایا ہوا شاہکار گیت "میری چنی دیاں ریشمی تنداں۔۔” فلم کا حاصل تھا۔

اداکار رنگیلا کو پہلی بار اس فلم میں مکالمے بولنے کا موقع ملا تھا۔ فلم زہرعشق 1958 بھی اپنے نغمات کی وجہ سے یادگار تھی جس میں حبیب ہیرو تھے۔ مسرت نذیر پر ناہید نیازی اور کوثرپروین کے یہ دو مقبول گیت فلمائے گئے تھے "موہے پیا کو ملن کو جانے دے بیرنیا۔۔” اور "پل پل جھوموں ، جھوم کے گاؤں۔۔” خواجہ خورشیدانور کی موسیقی تھی۔ فلم جان بہار (1958) پہلی فلم تھی جس کے ہدایتکار سید شوکت حسین رضوی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس فلم میں پہلے میڈم نورجہاں ہیروئن کا رول کر رہی تھیں لیکن طلاق کی وجہ سے ان کی جگہ مسرت نذیر کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ غالباً واحد فلم تھی جس کے ایک گیت میں سدھیر اور سنتوش کو ایک ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس سال کی دیگر دو فلمیں نیا زمانہ اور رخسانہ (1958) تھیں۔
1959ء میں مسرت نذیر ، نو فلموں کے ساتھ چوٹی کی ہیروئن تھی۔ اس سال کی سب سے بڑی فلم کرتارسنگھ (1959) تھی جو اپنی کہانی ، ادکاری اور نغمات کی وجہ سے ایک شاہکار فلم تھی۔ اس فلم میں نسیم بیگم کا یہ گیت "دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا ، ویر میرا گھوڑی چڑھیا۔۔” ایک فوک گیت کا درجہ اختیار کر گیا تھا۔ مسرت نذیر پر فلمایا ہوا زبیدہ خانم کا یہ گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا "گوری گوری چاننی دی ، ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں نی ، دل کرے چن دا میں منہ چم لاں نی۔۔” فلم جھومر (1959) میں ناہید نیازی کا یہ سپرہٹ گیت "چلی رے چلی رے ، میں تو دیس پیا کے چلی رے۔۔” بھی مسرت نذیر پر فلمایا گیا تھا۔ فلم راز (1958) میں مسرت نذیر پر زبیدہ خانم کا یہ گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا "میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا۔۔” اس فلم میں پہلی بار اعجاز کے ساتھ جوڑی بنی تھی۔ فلم سولہ آنے (1959) میں بھی زبیدہ خانم کا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا "روتے ہیں چھم چھم نین ، بچھڑ گیا چین رے۔۔” فلم سوسائٹی (1959) ایک بولڈ موضوع پر بنائی گئی فلم تھی۔ دیگر فلموں میں یاربیلی ، سہارا ، لکن میٹی اور جائیداد (1959) تھیں۔

1960ء کا سال مسرت نذیر کے لئے سات فلمیں لے کر آیا۔ اس سال کی خاص بات یہ تھی کہ فلم سٹریٹ 77 (1960) میں مسرت نذیر نے اپنا بنیادی شوق پورا کیا تھا یعنی بطور گلوکارہ اپنا اکلوتا گیت گایا تھا "یوں چپکے چپکے آنکھوں میں تصویر تیری لہرائی ہے۔۔” نیم آرٹ فلم کلرک (1960) میں مسرت کی جوڑی فلم کے ہدایتکار خلیل قیصر کے ساتھ تھی جن کی یہ بطور ہیرو واحد فلم تھی۔ اس سال کی دیگر فلمیں گلبدن ، نوکری ، وطن ، دل نادان کے علاوہ فلم ڈاکو کی لڑکی (1960) بھی تھی جس میں ساٹھ کے عشرہ کی سب سے مقبول و مصروف گلوکارہ مالا نے موسیقار رشید عطرے کی دھن میں اپنا پہلا گیت "اے میرے دل بتا ، کیسے بتا دوں بھلا۔۔” گایا تھا جو مسرت نذیر پر فلمایا گیا تھا۔
1961ء میں مسرت نذیر کے کریڈٹ پر پانچ فلمیں تھیں۔ سال کی سب سے بڑی فلم گلفام (1961) تھی جس کے ہیرو درپن تھے۔
اس فلم میں نسیم بیگم کا یہ خوبصورت گیت مسرت نذیر پر فلمایا گیا تھا "حضور دیکھئے ، ضرور دیکھئے ، شباب ہے نشے میں چور چور دیکھئے۔۔” موسیقار رشید عطرے کی کمال کی دھن تھی۔ فلم مفت بر (1961) میں مسرت نذیر نے وہی رول کیا تھا جو فلم بے قصور (1970) میں دیبا یا فلم انمول (1973) میں شبنم نے کیا تھا ، ان دونوں فلموں کی کہانی اسی فلم سے ماخوذ تھی۔ اس سال کی دیگر فلموں میں چھوٹے سرکار ، سنہرے سپنے اور منگول (1961) تھیں۔

1962ء میں مسرت نذیر کی صرف دو فلمیں سامنے آئیں۔ غالباً اس عرصہ میں وہ شادی کر چکی تھی اور باقی ماندہ فلمیں مکمل کروا رہی تھی۔ ایک منزل دو راہیں (1962) تو عام سی فلم تھی لیکن شہید (1962) ایک شاہکار فلم تھی۔ کردارنگاری میں یہ مسرت نذیر کی سب سے بڑی فلم تھی۔ اس پر فلمایا ہوا نسیم بیگم کا یہ سدابہار گیت "اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو ، اشک رواں کی نہر ہے ، اور ہم ہیں دوستو۔۔” کیا کمال کا گیت تھا۔ منیر نیازی کی شاعری ، رشیدعطرے کی دھن ، نسیم بیگم کی آواز اور اس پر مسرت نذیر کی لاجواب ادکاری ، بلاشبہ ہدایتکار خلیل قیصر کی یہ شاہکار فلم بین الاقوامی میعار کی تھی۔ اعجاز روایتی ہیرو تھے لیکن طالش نے ایک انگریز کے روپ میں عالمی میعار کی اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ علاؤالدین نے بھی ایک عرب شیخ کے کردار میں لاجواب کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔

(1967)مسرت نذیر نے فلم عشق پر زور نہیں (1963) میں مہمان اداکارہ کے طور پر کام کیا تھا۔ اس کی آخری ریلیز شدہ فلم بہادر ، چار سال تک تکمیل کے مراحل طے کرتی رہی اور بالآخر 1967ء میں جا کر ریلیز ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ شادی کر کے بیرون ملک چلی گئی تھی لیکن فلمساز بضد تھا کہ فلم لازمی مکمل کرے گا اور مسرت نذیر ہی کے ساتھ کرے گا ، سو اس نے انتظار کیا اور فلم مکمل کروا کے ہی دم لیا تھا۔ یہ فلم جب ریلیز ہوئی تھی تو فلم کے ہیرو درپن کا دور گزر چکا تھا اور ولن محمدعلی ، چوٹی کے ہیرو بن چکے تھے۔ یہی واحد فلم تھی جس میں مسعودرانا کا کوئی گیت مسرت نذیر پر فلمایا گیا تھا "اے جان غزل ، لہرا کے نہ چل ، دلبر میرا دل تڑپا کے نہ چل۔۔” مسعودرانا کا اپنے ابتدائی دور میں آئرین پروین کے ساتھ گایا ہوا یہ دلکش رومانٹک دوگانا درپن اور مسرت نذیر پر فلمایا گیا تھا جس کی دھن دیبو بھٹاچاریہ نے بنائی تھی۔
مسرت نذیر نے صرف سات برسوں میں 46 فلموں میں کام کیا تھا جن میں 32 اردو اور صرف 14 پنجابی فلمیں تھیں۔ سدھیر اور اسلم پرویز کے ساتھ بارہ بارہ فلموں میں کام کیا تھا۔ سنتوش کے ساتھ چھ جبکہ درپن اور اعجاز کے ساتھ سات سات فلموں میں کام کیا تھا۔ مسرت نذیر پر سو سے زائد گیت فلمائے گئے تھے جن میں سے آدھے گیت صرف زبیدہ خانم نے گائے تھے۔

سیالکوٹ کے ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھنے والی مسرت نذیر نے کینیڈا کے ایک پاکستانی ڈاکٹر ارشد مجید سے شادی کی تھی۔ دو عشروں تک پاکستان سے باہر رہی لیکن 1980 کے عشرہ میں ایک منجھی ہوئی گلوکارہ کے طور پر دھماکہ خیز انداز میں واپس آئی۔ اس کا گایا ہوا لوک گیت "میرا لونگ گواچہ۔۔” ایک سٹریٹ سانگ ثابت ہوا جو فلمی دنیا میں کسی بھونچال سے کم نہ تھا۔ موسیقار ایم اشرف نے مسرت نذیر کے اس گیت کو فلم دلاری (1987) میں شامل کیا تھا۔ میڈم نورجہاں کو جب یہ خبر ملی تو انہوں نے فلمساز اور ایم اشرف کو حکم دیا کہ یہی گیت ، اسی دھن اور بولوں کے ساتھ ان سے بھی گوا کر فلم میں شامل کیا جائے اور فلم پہلے ریلیز بھی کی جائے ، ایسا ہی ہوا۔ میڈم کا گایا ہوا گیت فلم اللہ راکھا (1987) میں شامل کیا گیا تھا لیکن نقل ، اصل سے بہتر نہ تھی۔ اللہ راکھا (1987) کراچی میں سوا مہینے جبکہ دلاری (1987) سوا پانچ مہینے تک چلتی رہی تھی۔ بظاہر ‘لونگ گواچہ’ کی یہ سرد جنگ مسرت نذیر نے جیت لی تھی۔ مسرت نذیر نے اس دور میں بڑی تعداد میں پرائیویٹ البم ریلیز کئے تھے جن میں مقبول عام گیت ، غزلیں ، شادی و بیاہ کے لازوال پنجابی لوک گیت بھی تھے۔ مسرت نذیر کی گائی ہوئی ایک غزل کیا کمال کی تھی "چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر ، آہستہ آہستہ۔۔!”

اعزازات
1958ء میں نگار ایوارڈز برائے بہترین اداکارہ، فلم زہر عشق کے لئے۔
1959ء میں نگار ایوارڈز برائے بہترین اداکارہ، فلم جھومر کے لئے۔
1962ء میں نگار ایوارڈز برائے بہترین اداکارہ، فلم شہید کے لئے۔ میں مسرت نذیر کو صدر پاکستان کی طرف سے1989
میں تمغہء حسن کارکردگی عطاء کیا گیا۔
۔……۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وکی پیڈیا سے ماخوذ

ترتیب و پیشکش آغا نیاز مگسی

Comments are closed.