جس کیس میں بھٹو کو سزا دی گئی، اس ایف آئی آر میں نامزد ہی نہیں کیا گیا تھا،عدالتی معاون

0
120
bhutto

سپریم کورٹ میں سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کیس کی سماعت ہوئی

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نےسماعت کی،جسٹس طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

جسٹس ر منظور ملک نے کہا کہ کل میں گواہ مسعود محمود پر جرح کی بات کر رہا تھا، اس دوران جسٹس یحیی آفریدی نے اہم سوال اٹھایا، ایک گواہ نے کہا ڈی جی ایف ایس ایف سے احمد رضا قصوری کو صاف کرنے کی ہدایت ملی، یہ بیان کیس کے وعدہ معاف گواہ کے بیان کو رد کر رہا تھا، وعدہ معاف گواہ نے کہہ رکھا تھا قتل کی ہدایات وزیراعظم سے ملیں، دوسرے گواہ کا بیان چونکہ وعدہ معاف گواہ کیخلاف تھا اس لیے اسے نظر انداز کر دیا گیا، سوال تھا کیا گواہ میاں غلام عباس کا بیان 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے ہوا؟ اس سوال کا جواب ہاں میں ہے مگر 342کے بیان میں انہوں نے کہا وہ رضاکارانہ بیان نہیں تھا، وہ بیان دیکھ لیتے ہیں وہ تھا کیا، 164 کے تحت محض بیان ریکارڈ کرانے سے کوئی گواہ نہیں بن جاتا، جب تک اسے معافی نہ دی جائے اس کا 164 کا بیان صرف اعتراف جرم ہو گا،جس کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزا دی گئی، اس میں ذوالفقار علی بھٹو کو ایف آئی آر میں نامزد ہی نہیں کیا گیا تھا۔ قصوری کیس میں تفتیشی افسر سے سوال پوچھا گیا، جس پر اس نے جواب دیاکہ مجھے میرے افسرنےزبانی طور پر ہدایت دی تھیں کہ تحقیقات کریں،مگر اس افسرکے پاس کوئی آرڈر موجود ہی نہیں تھاجو کہ اس کے پاس لازمی ہونا چاہیئے تھا.

جسٹس سردار طارق کی ریٹائرمنٹ سے پہلے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کا تعلق بھی قصور سے ہے، کیا قتل کا حکم دینے والے کو مسعود محمود اور مدعی مقدمہ کے تعلق کا علم نہیں تھا؟ کیا سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ نے اس پہلو کا جائزہ لیا تھا؟ یہ بھی ممکن ہے کہ دشمنی یا مخالفت اپنے علاقہ کے لوگوں سے ہی ہوتی ہے،کیا اس پہلو کی تحقیقات کی گئیں کہ قتل کا حکم کسی اور نے دیا اور نام وزیراعظم کا لگا دیا گیا؟ گواہ کا ضمیر تین سال بعد ہی کیوں جاگا؟منظور ملک نے کہا کہ کیس میں بہت زیادہ دستاویزات ہیں اتنی کہ پڑھنا ممکن نہیں، یہ بھی ایک طریقہ ہے کہ اتنی دستاویزات لگا دو کہ کوئی پڑھے ہی نہ،عدالتی معاون جسٹس(ر) منظور ملک کے دلائل مکمل ہوگئے ،عدالت نے گواہ مسعود محمود کے بیرون ملک جانے کی تفصیلات اٹارنی جنرل سے طلب کر لیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوشش کریں دلائل مختصر کریں، جسٹس سردار طارق کی ریٹائرمنٹ سے پہلے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی معاون منظور ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ بنچ کا حصہ تھے لیکن پھر بھی دس بارہ سال یہ مقدمہ نہیں چلایا گیا،

عدالت کو اپنی غلطی سدھارنے میں کوئی عار نہیں لیکن طریقہ کار تو بتائیں،جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ریفرنس میں کونسا قانونی سوال ہے پہلے یہ واضح کریں،صدارتی ریفرنس میں صرف قانونی سوالات ہی پوچھے جا سکتے ہیں، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ قانونی سوال کیسا ہوگا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سوال قانونی نوعیت کا ہے یا نہیں اس کا تعین کیا جا سکتا ہے،کبھی تو صدر ایسے سوال بھی بھیج دیتے ہیں کہ خفیہ بیلٹ کیا ہوتا ہے، بعض اوقات تو سادہ انگریزی کے سوالات بھی آ جاتے ہیں، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پہلا سوال ہے کہ بھٹو کیس کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس سوال کا جواب صدر کو خود دینا چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانونی سوال کا جواب دینے کیلئے مقدمہ کے حقائق کا جائزہ نہیں لینا ہوتا، عدالت کو اپنی غلطی سدھارنے میں کوئی عار نہیں لیکن طریقہ کار تو بتائیں، ابھی تک سمجھ نہیں آ رہا کہ ریفرنس میں کیا قانونی سوال اٹھایا گیا ہے،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رضا ربانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ رضا ربانی صاحب آپ کس کی نمائندگی کریں گے؟ رضا ربانی نے کہا کہ میں صنم بھٹو کی نمائندگی کروں گا،

لاہور کا واقعہ دیکھ لیں حلوہ شرٹ پر لکھا تھا اس عورت کو لوگ مارنے پر اتر آئے،اعتزاز احسن
عدالتی معاون بیرسٹر اعتزاز احسن کے دلائل شروع ہو گئے، اعتزاز احسن نے کہا کہ میں اسلامی پہلو والے سوال پر جواب نہیں دوں گا، اس سوال سے تو میں ڈرتا ہوں ، میں اسلامی پہلو سے جواب دے دوں کسی کو پسند نہ آئے، میں تو مارا گیا،سپریم کورٹ کو اس کیس کے فیصلے میں احتیاط کرنی چاہیے،عدالتی رائے کسی ایک فریق کیخلاف ہوئی تو اشتعال پھیل سکتا ہے،ہمارے ملک میں لوگ بہت جلد حساس معاملات پر مشتعل ہوجاتے ہیں،لاہور کا واقعہ دیکھ لیں حلوہ شرٹ پر لکھا تھا اس عورت کو لوگ مارنے پر اتر آئے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ اگر یہ حساس معاملہ ہے تو پارلیمنٹ خود دیکھ لے، کیا سپریم کورٹ یہ قرار نہیں دے سکتی کہ بھٹو کیس کا فیصلہ غلط تھا،بلوچستان میں جرگہ سسٹم تھا غلط فیصلے ہوتے تھے کیا انکو بھی غلط نہیں کہا جاسکتا،عدالتی معاون اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر جواب دینے کی پابند ہے،لازمی نہیں کہ یہ کہا جائے فیصلہ درست ہے یا غلط نو کمنٹس بھی لکھا جاسکتا ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے،ٹرائل کورٹ سے ایف آئی اے کو کیسے کیس منتقل ہوگیا،بھٹو کیس کا بند ٹرائل دوبارہ کیسے کھولا گیا یہ بھی دیکھنا ہوگا،اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس کا فیصلہ درست نہیں تھا،سپریم کورٹ اور معاملات میں نہ پڑے بس یہ کہہ دے فیصلہ درست تھا یا نہیں،

سپریم کورٹ میں ذوالفقار بھٹو کی پھانسی پر صدارتی ریفرنس کی سماعت جاری

واضح رہے کہ سابق صدر آصف زرداری نے اپریل 2011 میں صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا، جس کے بعد ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں 6 سماعتیں ہوچکی ہیں، اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا جس نے 3 جنوری 2012 سے 12 نومبر 2012 تک کیس کی 6 سماعتیں کیں لیکن کوئی فیصلہ نہ دیا، صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی، اب تقریباً 11 برس کے طویل عرصے بعد ریفرنس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا

 پیپلز پارٹی نے 108 صفحات پر مشتمل تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا

بھٹو صدارتی ریفرنس کی گزشتہ سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری 

ہمارا بھٹو تو واپس نہیں آئے گا، ہمیں امید ہے غلط فیصلے کو غلط کہا جائے گا

سپریم کورٹ کے ہاتھ 40 برسوں سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لہو سے رنگے ہوئے

خاور مانیکا انٹرویو اور شاہ زیب خانزادہ کا کردار،مبشر لقمان نے اندرونی کہانی کھول دی

Leave a reply