اہلیہ بارے جھوٹی خبر، کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس برہم

0
220
supreme

سپریم کورٹ، ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو نوٹسز، کیس کی سماعت ہوئی

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،پریس ایسوسی ایشن کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت میں کہا کہ کیس میں کچھ بھی ارجنٹ نہیں ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ بیرسٹر حیدر وحید کہاں ہیں؟ وکیل نے کہا کہ وہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ مگر وہ عدالتی کارروائی کے لیے نہیں آئے، کیا ان کی پٹیشن آزادی اظہار کو یقینی بناتی یا مزید روکتی؟ ان کے کیس میں درخواست گزار کون تھے؟ 2022 سے یہ درخواست کس بنیاد پر دائر تھی؟ کیا ان کامقصد پورا ہو گیا ہے؟ درخواست گزاروں میں کوئی چکوال کا تھا کوئی اسلام آباد کا، کون سا مشترکہ مفاد تھا جو ان درخواستگزاروں کو ساتھ لایا تھا؟ میڈیا میں بھی بڑی منتخب رپورٹنگ ہوتی ہے، اب یہ رپورٹ نہیں ہو گا کہ یہ 6 درخواستگزار غائب ہو گئے، اسی لیے ہم نے کہا تھا کہ ہم اپنا یوٹیوب چینل چلائیں گے، کیا حیدر وحید والی درخواست کا کوئی پٹیشنر عدالت میں ہے؟

بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ کیا اس طرح کی درخواست عدالت کا غلط استعمال نہیں ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بالکل یہ عمل کا غلط استعمال ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ایسی درخواستیں عدلیہ کی آزادی یقینی بناتی ہیں یا اسے کم کرتی ہیں؟ اس پٹیشن کے تمام درخواستگزاروں کو نوٹس کر کے طلب کیوں نہ کریں؟اٹارنی جنرل نے بھی درخواستگزاروں کو نوٹس جاری کرنے کی حمایت کردی،بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ عوامی مفاد کی درخواست واپس نہیں ہو سکتی، آرمی چیف کی توسیع سے متعلق ریاض حنیف راہی والی درخواست بھی واپس نہیں لینے دی گئی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کہیں آپ کی ان لوگوں سے عدالت کے باہر ہی سیٹلمنٹ تو نہیں ہوگئی ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہم ایک صحافتی ادارہ ہیں ایسی سیٹلمنٹ کے وسائل نہیں ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں پیسے ہی ہوں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہا گیا ہو آئندہ میری خبر اچھی چھاپ دینا

سپریم کورٹ نے میڈیا ریگولیشن والی پٹیشن کے درخواست گزاروں کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے نوٹس جاری کر دیے،

اس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کوئی اور ارجنٹ معاملہ ہے؟ اس پر بیرسٹر صلاح الدین کا مطیع اللہ جان کیس کا حوالہ دیا ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل اگر میں ایک کیس کو اوپن اینڈ شٹ کہوں تو وہ مطیع اللہ جان کیس کا ہے، آپ کے پاس اس واقعے کی ویڈیو موجود ہے، حکومت اخبار میں اشتہار کیوں نہیں دیتی کہ ان لوگوں کی تلاش ہے؟ اگر آپ کچھ نہیں کرتے تو ایسا آرڈر آئے گا جو آپ کو پسند نہیں آئے گا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے انٹرویو ریکارڈ کیا تھا؟ یہ کیسی صحافت ہوئی؟ آج کل سلیکٹو رپورٹنگ ہوتی ہے اس لئے ہم اپنا یوٹیوب چینل چلائیں گے، ایسی ایسی خبریں چلتی ہیں جن کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہوتی،اگلے ہی دن میری اہلیہ کے بارے میں غلط خبر چل گئی، کہا گیا وہ ایک میٹنگ میں بیٹھی ہوئی تھیں، تو کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟ پھر کہا جائے گا چیف جسٹس کی بیوی نے تو تردید جاری نہیں کی، کیا تاثر جائے گا اس خبر سے کہ چیف جسٹس کی اہلیہ آفیشل میٹنگ میں بیٹھی تھیں؟ تھوڑا سا خوف کریں، ہمارا نہیں تو اللہ تعالیٰ کا خوف کر لیں، کبھی کبھی سچ بول لیں،جھوٹی خبر پر دو چار پروگرام بنائو، چلائو اور یوٹویب سے پیسہ کمائو، خبر غلط ہو تو پھر یوٹیوب سے ہی کاٹو، میرے خلاف کیا جھوٹی خبر چلتی ہے آئی ڈونٹ کیئر، ادارے کی ساکھ تباہ ہوتی ہے، ایسی خبر چلانے والوں کو کیا توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ کیا فرد جرم عائد کر کے انہیں جیل بھیجیں؟ اپنے تھمب نیل اور اپنی خبر میں انہوں نے یہی کہہ دیا، کیا زیادہ ری ٹوئٹس ، لائکس سے پیسے کمائے جارہے ہیں؟ کیا کسی صحافی پر جھوٹ بولنا ثابت ہوجائے تو صحافتی ادارے اس کی ممبر شپ ختم کریں گے؟بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ وارننگ دے کر، شوکاز کر کے ممبر شپ ختم کر سکتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس سے کیا ہو جائے گا؟ آپ افسر آف کورٹ ہیں حل بتائیں، بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہتک عزت کا قانون پاکستان میں اتنا مضبوط نہیں اس لیے یہ سب ہوتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "کیا وکلا نے کبھی اپنے ممبر کے خلاف کارروائی کی ہے؟ صحافیوں نے کی ہے؟ یہ سب تو ٹریڈ یونین بن گئی ہیں، ہم نے تو آپ کو اپنے ادارے میں کر کے دکھایا آپ بھی کر کے دکھائیں نا”۔کیا پیسے کمانے کیلئے ایسی خبریں خود سے تیار کی جاتی ہیں،
اگر کوئی صحافی اپنی خبر میں جھوٹا ثابت ہو تو اس کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے،بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ برطانیہ میں ہتک عزت کا قانون بہت مضبوط ہے، برطانیہ میں پاکستانی چینلز بھاری جرمانے عائد ہونے کے سبب نشریات جاری نہیں رکھ سکتے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اب اگر کسی کو نوٹس جاری کرکے طلب کریں تو سارے ہمارے سامنے کھڑے ہو جائیں گے،وہ معاشرے ترقی کرتے ہیں جہاں اداروں میں اندرونی احتساب ہو، ہم نے تو اپنا احتساب کرکے دکھایا،

عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین سے تحریری دلائل بھی طلب کرلیے،عدالت نے ریمارکس دیے کہ سابقہ بینچ کی دوبارہ دستیابی پر کیس دوبارہ مقرر کیا جائے گا

صحافیوں کو جاری نوٹسز سے متعلق کیس،اگرگزشتہ درخواست پر فیصلہ ہو جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا،چیف جسٹس

مونال ریسٹورنٹ کیس،ریکارڈ فوراً پیش کریں ورنہ توہین عدالت کا نوٹس،چیف جسٹس برہم

اسقاط حمل کو جرم کی تعریف سے نکالنے کی درخواست پر نوٹس جاری

عمران خان کو رہا، عوامی مینڈیٹ کی قدر کی جائے،عارف علوی کا وکلا کنونشن سے خطاب

جماعت اسلامی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کو مسترد کر دیا۔

ججز خط کی انکوائری، سپریم کورٹ بار کا تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کرنے کا اقدام خوش آئند قرار

ججز کا خط، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی انکوائری کمیشن کے سربراہ مقرر

ہائیکورٹ کے 6 ججز نے جو بہادری دکھائی ہیں یہ قوم کے ہیرو ہیں،اسد قیصر

ججز کے خط نے ثابت کردیا کہ نظام انصاف مفلوج ہوچکا، لہذا چیف جسٹس مستعفی ہو ، پی ٹی آئی

Leave a reply