عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

1998 میں عرفان صدیقی کو اترپردیش کی حکومت نے میر اکادمی کا اعزاز عطا کیا تھا-
0
170
poet

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

عرفان صدیقی

نامور شاعر محمد عرفان المعروف عرفان صدیقی 8 جنوری 1939ء میں اترپردیش کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئے تھے، عرفان صدیقی کی ولادت ایک علمی خانوادہ میں ہوئی، جس میں مذہب اور شعر گوئی کی روایت کئی پشتوں سے چلی آرہی تھی، ان کے پردادا مولانا محمد انصار حسین حمیدی زلالی بدایونی شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی کے شاگرد تھے اور دادا مولوی اکرام احمد شاد صدیقی، مولانا سید علی احسن مارہروی کے شاگرد تھے، عرفان صدیقی کے والد مولوی سلمان احمد صدیقی ہلالی بدایونی ایک وکیل اور صاحب طرز ادیب و شاعر تھے، ان کی والدہ مرحومہ رابعہ خاتون کو بھی شعر و ادب سے خاص انسیت تھی اور خود شعر بھی کہتی تھیں، ان کے بڑے بھائی نیاز بدایونی بھی شاعر تھے، محشر بدایونی اور دلاورفگار ان کے قریبی رشتےدار تھے۔

عرفان صدیقی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن ضلع بدایوں کے محلہ ”سُوتھا“میں اپنے گھر میں حاصل کی، پھر کرسچین ہائر سکنڈری اسکول بدایوں سے میٹرک کا امتحان 1953ء میں پاس کیا حافظ صدیق میسٹن اسلامیہ انٹر کالج بدایوں سے انٹر میڈیٹ، بریلی کالج بریلی سے1957ء میں بی۔اے اور 1959ء میں ایم۔اے کیا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن سے صحافت کا ڈپلوما کیا۔

1962ء میں حکومت ہند کے محکمہ اطلاعات و نشریات اور وزارت دفاع کے مختلف شعبوں میں اطلاعات، خبر نگاری اور رابطہ عامّہ کی مختلف ذمہ داریوں کو انجام دیتے رہے۔ ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن افسر کے عہدے سے 1998ء میں وظیفہ یاب ہوئے اور لکھنو میں آخری دم تک قیام رہا۔

عرفان صدیقی کی شاعری کے پانچ مجموعے: کینوس، شبِ درمیاں، سات سماوات، عشق نامہ اور ہوائے دشت ماریہ کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کی شاعری کی کلیات’دریا‘کے نام سے پاکستان میں اشاعت پذیر ہوئی عرفان صدیقی ایک اچھے مترجم بھی تھے ۔ انہوں نے کالی داس کی ایک طویل نظم ’رت سنگھار‘اور کالی داس کے ڈرامے ’مالویکا اگنی متر‘ کا ترجمہ براہ راست سنسکرت سے اردو میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مراکش کے ادیب محمد شکری کے سوانحی ناول کا ترجمہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے 1100ء سے 1850ء تک کے اردو ادب کا ایک جامع انتخاب بھی کیا تھا۔ جو ساہتیہ اکیڈمی سے اشاعت پذیر ہوا۔ 1998 میں عرفان صدیقی کو اترپردیش کی حکومت نے میر اکادمی کا اعزاز عطا کیا تھا،15؍اپریل 2004 کو درمیانی شب میں لکھنؤ میں دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ نماز جمعہ کے بعد ان کی تدفین ڈالی گنج کے قبرستان میں ہوئی۔

بحوالہ ریختہ ڈاٹ کام

عرفانؔ صدیقی کے چند منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے
آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر
———-
عجب حریف تھا ، میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
———-
تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک
———-
توڑ دی اُس نے وہ زنجیر ہی دلداری کی
اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی
———-
شمعِ خیمہ کوئی زنجیر نہیں ہم سفراں
جس کو جانا ہو چلا جائے ، اجازت کیسی
———-
اب سخن کرنے کو ہیں نو واردانِ شہرِ درد
اٹھیے صاحب ! مسندِ ارشاد خالی کیجیے
———-
ہم سب آئنہ در آئنہ در آئنہ ہیں
کیا خبر کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے
———-
نقش پا ڈھونڈنے والوں پہ ہنسی آتی ہے
ہم نے ایسی تو کوئی راہ نکالی بھی نہیں
———-
رات کو جیت تو سکتا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے
———-
جل بجھیں گے کہ ہم اس رات کا ایندھن ہی تو ہیں
خیر دیکھیں گے یہاں روشنیاں دوسرے لوگ
———-
زمانہ کل انہیں سچائیاں سمجھ لے گا
تم اک مذاق سمجھتے ہو تہمتوں کو ابھی
———-
اپنے لئے تو ہار ہے کوئی نہ جیت ہے
ہم سب ہیں دوسروں کی لڑائی لڑے ہوئے
———-
ہُو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیرِ گراں بولتی ہے
———-
اٹھو یہ منظرِ شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں‌خواب دیکھنے کے لیے
———-
ایک کوشش کہ تعلق کوئی باقی رہ جائے
سو تری چارہ گری کیا ، مری بیماری کیا
———-
ہم نے مدّت سے اُلٹ رکھّا ہے کاسہ اپنا
دستِ زردار ترے درہم و دینار پہ خاک
———-
میں تو اس دشت میں خود آیا تھا کرنے کو شکار
کون یہ زین سے باندھے لیے جاتا ہے مجھے
———-
یہ تیر اگر کبھی دونوں کے درمیاں سے ہٹے
تو کم ہو فاصلۂ درمیاں ہمارا بھی
———-
کہیں خرابۂ جاں کے مکین نہیں جاتے
درخت چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے
———-
اگر میں فرض نہ کرلوں کہ سن رہا ہے کوئی
تو پھر مرا سخن رائیگاں کہاں جائے
———-
مجھے یہ زندگی نقصان کا سودا نہیں لگتی
میں آنے والی دنیا کوبھی تخمینے میں رکھتا ہوں
———-
پیشِ ہوس تھا خوانِ دو عالم سجا ہوا
اس رزق پر مگر گزر اوقات نہیں ہوئی
———-
یہ کائنات مرے بال و پر کے بس کی نہیں
تو کیا کروں سفرِ ذات کرتا رہتا ہوں
———-
عذابِ جاں ہے عزیزو ، خیالِ مصرع ء تر
سو ہم غزل نہیں کہتے ، عذاب ٹالتے ہیں
———-
لوگ کیوں مجھ کو بلاتے ھیں کنارے کی طرف
میں جہاں ڈوب رھا ھوں وہ کنارہ ہی تو ہے
———-
چاہتی ہے کہ مجھے ساتھ بہا لے جائے
تم سے بڑھ کر تو مجھے موجِ فنا چاہتی ہے

Leave a reply