غیر قانونی ٹارچر سیل، خفیہ ٹیمیں تشکیل ،اب نہیں ہو گا تھانوں میں تشدد

0
56

غیر قانونی ٹارچر سیلز تلاش کرنے کے لیے لاہور پولیس کی 6 خفیہ ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پنجاب پولیس میں تشدد کے خاتمے کے لئے حکام نے تھانوں کی مانیٹرنگ کے لئے ٹیمیں تشکیل دی ہیں، لاہور پولیس کی 6 خفیہ ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں ،ہر ٹیم کو ایک ایک ڈویژن میں ٹارچر سیل تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ،3سے4ارکان پر مشتمل ٹیم ایس پی لیول کے افسر کو رپورٹ کرےگی،خفیہ ٹیمیں لاہور کے تمام تھانوں کی انسپکشن بھی کریں گی،ٹیمیں تھانوں میں نصب سی سی ٹی وی کیمرےبھی چیک کریں گی

پنجاب پولیس نہ بدل سکی، پولیس حراست میں تین ماہ میں 5 ہلاکتیں، ذمہ دار کون

واضح رہے کہ پولیس تشدد سے صلاح الدین کی ہلاکت کے بعد سے سوشل میڈیا پر پولیس پر بڑی تنقید کی جار ہی ہے.

وزیرقانون کا پولیس تشدد کے باعث زیرحراست ملزمان کی ہلاکت کا نوٹس

دوسری جانب ایڈوکیٹ ندیم سرور نے پولیس کی جانب سے صلاح الدین سمیت دیگر پر تشدد کیسز کے خلاف درخواست دائر کر دی ،درخواست میں وفاقی حکومت،پنجاب حکومت ، آئی جی پنجاب اور آر پی او بہاولپور کو فریق بنایا گیا ہے.

لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ رواں سال پولیس کے تشدد سے 7 افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں ، پولیس نے نجی ٹارچر سیل قائم کر رکھے ہیں جہاں اذیت ناک تشدد کیا جاتا ہے .چند روز قبل صلاح الدین کو اے ٹی ایم چوری کیس میں گرفتار کیا گیا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کے تشدد سے صلاح الدین زندگی کی بازی ہار گیا ۔

پولیس تشدد سے صلاح الدین قتل، وزیراعلیٰ کا جوڈیشل کمیشن کے لئے ہائیکوٹ کو خط

درخواست میں مزید کہا گیا کہ لوگوں کی زندگی کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ریاست عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے ۔لاہور ہائیکورٹ 2015 سے اب تک جتنے بھی لوگ پولیس تشدد سے ہلاک ہو چکے ہیں انکا ریکارڈ طلب کرے. ،درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت پولیس تشدد واقعات میں ملوث پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دے۔ عدالت پولیس ملزمان کا ماڈل کورٹ مقدمہ چلانے کا حکم دے ۔ عدالت پنجاب ٹربیونل آف انکوائری آرڈیننس کے تحت انکوائری کمیشن مقرر کرے جو پولیس ٹارچر سے ہوئی ہلاکتوں کی تحقیقات کرے۔

پولیس کے ٹارچر سیل سے بازیاب ہونے والا نوجوان ہسپتال میں چل بسا

 

لاہور، غیر قانونی حراستی سیل، کتنے افراد کو قید رکھا گیا؟ اہم خبر

 

 

Leave a reply