جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی تحریکوں کے حق میں زوردار خطاب کیا ہے۔ ایک بڑے جلسے میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیر کی تحریک میں فتح و کامرانی مجاہدوں کے قدم چومے گی۔مولانا نے کشمیریوں کی جدوجہد کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آزادی کی تحریکیں فوری نتائج نہیں دیتیں۔ انہوں نے زور دیا کہ "اگر تحریک میں شامل قومیں استقامت اور بلند عزم رکھتی ہیں تو تحریک سمندر کی لہروں کی طرح ساحل پر جا کر رکتی ہیں۔”برصغیر کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا نے کہا کہ یہاں آزادی کی جنگ دو سو سال سے زیادہ لڑی گئی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حالات اور جغرافیے بدلنے کے باوجود، آزادی کا نظریہ نسل در نسل آگے بڑھتا رہتا ہے۔
مولانا نے بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کی شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ "یہاں پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں نے خاموشی اختیار کی، لیکن پاکستان کے عوام، جوان اور قوم کشمیریوں کے ساتھ ہیں اور انہیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔”اپنے خطاب میں مولانا نے فلسطین کے مسئلے کو بھی اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ "فلسطینیوں کی زمین کو نہیں خریدا جاسکتا۔” انہوں نے 1917 کے انگریزی معاہدے کی مذمت کی جس کے تحت یہودیوں کو فلسطین میں بستیاں بنانے کی اجازت دی گئی تھی۔
مولانا نے یاد دلایا کہ 1940 میں لاہور میں منظور ہونے والی قرارداد پاکستان میں بھی فلسطین کی سرزمین پر یہودی آبادکاری کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔اس خطاب نے جے یو آئی کے کشمیر اور فلسطین کے مسائل پر موقف کو ایک بار پھر واضح کیا ہے۔ مولانا کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان علاقوں کی آزادی کی تحریکوں کو طویل المدتی جدوجہد سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔یہ خطاب پاکستان کی سیاست میں کشمیر اور فلسطین کے مسائل کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے، خاص طور پر مذہبی جماعتوں کے نزدیک۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ پاکستان کی حکومت ان مسائل پر کیا پالیسی اختیار کرتی ہے۔

Shares: