خاتون ڈاکٹر کےساتھ جنسی زیادتی و قتل کے بعد بھارت بھر میں ڈاکٹر سراپا احتجاج

0
140
dr india

بھارت میں دوران ڈیوٹی ٹرینی ڈاکٹر کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے جس کے بعد ڈاکٹر سراپا احتجاج ہیں

واقعہ کلکتہ میں پیش آیا، 31 سالہ ٹرینی خاتون ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی کی گئی اور اسکے بعد اسکو جان سے مار دیا گیا، ڈاکٹر کی لاش کلکتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج کے کمرے سے ملی،پوسٹمارٹم رپورٹ میں خاتون ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصدیق ہوئی ہے،بھارتی میڈیا کے مطابق مقتول ڈاکٹر کے اہلخانہ نے بتایا کہ اسپتال انتظامیہ نے انہیں 3 گھنٹے تک اسپتال کے باہر روکا اور کہا گیا کہ ٹرینی ڈاکٹر نے خود کشی کی ہے،پولیس کے مطابق واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں، ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے

خاتون ٹرینی ڈاکٹر سے زیادتی اور قتل کے واقعے کے خلاف پورے بھارت میں احتجاج شروع ہوگیا ہے، واقعے کے خلاف کلکتہ میں ہزاروں ڈاکٹرز نے احتجاج کیا، ریاست مہاراشٹرا کے 8 ہزار سے زائد سرکاری ڈاکٹروں نے میڈیکل سروسز کا بائیکاٹ کیا، نئی دہلی میں بھی ڈاکٹرز نے احتجاج کیا اور ایک سرکاری اسپتال کے باہر دھرنا دیا،لکھنو، اتر پردیش اور گوا میں بھی ڈاکٹروں نے احتجاج کیا اور مقتول خاتون ڈاکٹر کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا،ممبئی کے ہسپتالوں میں بھی رہائشی ڈاکٹروں کا احتجاج جاری ہے، بی ایم سی کالجوں (کیم، سائن، نائر اور کوپر) کے ریزیڈنٹ ڈاکٹرز نے 13 اگست 2024 کو صبح 8 بجے سے ہڑتال کر دی ہے، جس کے نتیجے میں ہسپتال میں تمام سروسز معطل ہو چکی ہیں،ڈاکٹروں کی ہڑتال کے سبب تقریباً تمام اسپتالوں میں صحت کی خدمات بری طرح متاثر ہوئی ہیں

دوسری جانب کلکتہ ہائی کورٹ نے آر جی کار میڈیکل کالج اور اسپتال میں ایک خاتون جونیئر ڈاکٹر کی مبینہ عصمت دری اور قتل کی تحقیقات کے لئے سی بی آئی کو حکم دیا ہے جس کے بعد سی بی آئی کی ٹیم کولکتہ پہنچ گئی ہے،سی بی آئی ٹیم کا سات رکنی وفد کلکتہ میں تحقیقات کرے گا، سی بی آئی کی ٹیم میں فرانزک ماہرین اور میڈیکل آفیسرز شامل ہیں۔

میڈیکل کالج جیسی جگہ پر ڈاکٹرز محفوظ نہیں تو والدین کس بنیاد پر اپنی بیٹیوں کو باہر پڑھنے کے لیے بھیجنے پر بھروسہ کریں؟ راہول گاندھی
بھارت میں اپوزیشن لیڈر اور کانگریس رہنما راہول گاندھی نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ کولکتہ میں ایک جونیئر ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے لرزہ خیز واقعہ سے پورا ملک صدمے میں ہے۔ جس طرح ان کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ اور غیر انسانی اعمال کی تہہ در تہہ بے نقاب ہو رہی ہے، اس سے ڈاکٹر برادری اور خواتین میں عدم تحفظ کا ماحول ہے۔متاثرہ کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے ملزم کو بچانے کی کوشش ہسپتال اور مقامی انتظامیہ پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔اس واقعے نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اگر میڈیکل کالج جیسی جگہ پر ڈاکٹرز محفوظ نہیں تو والدین کس بنیاد پر اپنی بیٹیوں کو باہر پڑھنے کے لیے بھیجنے پر بھروسہ کریں؟ نربھیا کیس کے بعد بنائے گئے سخت قوانین بھی ایسے جرائم کو روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟ہاتھرس سے اناؤ اور کٹھوعہ سے کولکاتہ تک خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات پر ہر پارٹی اور ہر طبقہ کو سنجیدگی سے مل کر بات چیت کرنی ہوگی اور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔میں اس ناقابل برداشت دکھ میں متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انہیں ہر حال میں انصاف ملنا چاہیے اور مجرموں کو ایسی سزا ملنی چاہیے جو معاشرے میں ایک مثال بن جائے۔

Leave a reply