برطانیہ ،مسجد بارے نفرت انگیز پوسٹ کرنیوالی خاتون سمیت دیگر کو سزائیں

0
72
uk saza

برطانیہ میں فسادات کے بعد ملزمان کو سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے،

برطانیہ کے علاقے ساؤتھ پورٹ میں چاقو زنی کے بعد فسادات ہوئے تو پولیس نے ملزمان کو گرفتار کیا اور عدالتوں میں پیش کرنا شروع کیا، عدالتوں کی جانب سے ملزمان کو سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے،برطانوی عدالت نے پرتشدد مظاہروں کے دوران مسجد سے متعلق نفرت انگیز سوشل میڈیا پوسٹ پر 53 سالہ خاتون کو 15 مہینے قید کی سزا سنائی ہے،فسادات کے دوران خاتون جس کی شناخت جولی سیوینی کے طور پر ہوئی اس نے مسجد کے حوالہ سے نفرت انگیز پوسٹ سوشل میڈیا پر کی تھی، خاتون نے عدالت میں کہا کہ اسکامقصد خوف پھیلانا نہیں تھا، تسلیم کرتی ہوں کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کردوں گی

برطانوی عدالتوں میں 26 برس کے کونر وائیٹلی اور 49 سال کے ٹریور لائیڈ کو بھی نسل پرستی اور پرتشدد ہجوم کو بڑھاوا دینے کے الزامات پر 3-3 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے،60 سال کے گلین گیسٹ کو جنوبی یارک شائر میں پولیس اہلکار کو گھسیٹنے کے جرم میں 2 سال 8 ماہ قید کی سزائی گئی،34 سال کے ڈومینک کپالڈی کو برسٹل میں ہنگامہ آرائی پر 34 ماہ قید کی سزا سنائی گئی،ایک شخص کو ایک مسلم بس ڈرائیورپر تھوکنے اور اسے نسل پرستانہ گالی دینے کی پاداش میں ۱۰؍ ماہ کی قید کی سزا دی گئی ہے،

دوپہر کے بنگو سیشن کے بعد ہارٹل پول میں فسادات میں شامل ہونے والے ایک جوڑے کو دو سال اور دو ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا ہے۔54 سالہ اسٹیون میلن اور ان کے ساتھی ریان شیرز، 29، نے 31 جولائی کو 200 افراد کے اجتماع میں حصہ لینے کے بعد پرتشدد انتشار کا اعتراف کیا۔سزا سناتے ہوئے جج نے کہا کہ یہ جوڑا "ہجوم میں سب سے آگے” تھا

واضح رہے کہ برطانیہ میں فسادات اور پر تشدد مظاہروں کا حالیہ سلسلہ تب شروع ہوا جب 29 جولائی کو برطانیہ کے شمال مغرب ميں واقع شہر ساؤتھ پورٹ ميں چاقو سے کیے گئے ایک حملے میں تین بچیاں ہلاک ہو گئیں۔ اس واقعے میں مزید پانچ بچے زخمی بھی ہوئے تھے،اس کے بعد سوشل میڈیا پر یہ جھوٹی افواہ پھیل گئی کہ اس واقعے میں مشتبہ حملہ آور ایک مسلمان اور پناہ گزین ہے، تاہم بعد میں یہ واضح ہوا کہ مشتبہ شخص دراصل ایک برطانوی شہری ہے، جس کی شناخت سترہ سالہ ايکسل روداکوبانا کے طور پر کی گئی، برطانوی میڈیا رپورٹوں کے مطابق ايکسل روداکوبانا کے والدین کا تعلق روانڈا سے ہے،

جرمن نیوز ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق گرفتار افراد میں سے کئی کو ایک جج کے سامنے پیش کیا گیا، ان میں شامل ایک انیس سالہ نوجوان کو دو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے، ایک اور شخص کو ایک پولیس اہلکار پر حملہ کرنے کے اعتراف کے بعد سزا دی گئی، ایک پندرہ سالہ لڑکے نے، جس کی شناخت ایک ٹک ٹاک ویڈیو کے ذریعے کی گئی تھی، لورپول میں تشدد اور بد امنی کے واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ اسی طرح مزید ایک شخص نے فیس بک پر دھمکی آمیز پوسٹ کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس پوسٹ کا مقصد نسلی بنیادوں پر نفرت پھیلانا تھا،رپورٹ کے مطابق مسلمانوں اور پناہ گزینوں کےخلاف حالیہ مظاہروں اور فسادات کو برطانیہ میں گزشتہ تقریباﹰ ایک دہائی کے عرصے میں ہونے والی بدترین بد امنی قرار دیا جا رہا ہے، ان فسادات کے دوران مختلف شہروں میں مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا، گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور مساجد پر حملے کیے، انہوں نے کم از کم ایسے دو ہوٹلوں پر بھی حملے کیے جہاں پناہ گزین مقیم ہیں۔

فسادات مجھے برطانیہ چھوڑنے پر مجبور کر سکتے ہیں،حمزہ یوسف

برطانیہ میں نسل پرستی کی لہر: اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ

برطانیہ میں دوبارہ ہنگامہ: فاشسٹ گروپوں کی جانب سے عمارتوں کو نذر آتش ، لوٹ مار کی گئی

برطانیہ کے شہر لیڈز میں ہنگامہ آرائی میں ملوث متعدد افراد گرفتار

Leave a reply