بیرون ملک مقیم پینشنرز کے لیے فارن کرنسی میں پینشن ادائیگی ممنوع: وزارت خزانہ

0
79

اسلام آباد: وزارت خزانہ نے پینشن رولز کے حوالے سے ایک اہم وضاحتی آفس میمورنڈم جاری کیا ہے، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی پینشنرز کو فارن ایکسچینج میں پینشن کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس اہم فیصلے کے پیچھے کرنٹ اکاؤنٹ کی موجودہ صورتحال کو بنیاد بنایا گیا ہے۔آفس میمورنڈم میں وزارت خزانہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بیرون ملک مقیم کئی ریٹائرڈ سرکاری ملازمین فارن کرنسی میں اپنی پینشن کی ادائیگی کے خواہاں ہیں۔ تاہم، حکومت کی موجودہ مالی صورتحال اور کرنٹ اکاؤنٹ کے دباؤ کے باعث یہ ممکن نہیں ہے کہ انہیں غیر ملکی کرنسی میں پینشن ادا کی جائے۔ وزارت خزانہ نے مزید وضاحت کی کہ یہ پابندی صرف ان ملازمین پر عائد کی گئی ہے جو 2 جنوری 1959 کے بعد بھرتی ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس، وہ ملازمین جو 1959 سے قبل سرکاری ملازمت میں آئے تھے، انہیں فارن ایکسچینج میں پینشن لینے کی سہولت حاصل ہے۔ وزارت نے اس پالیسی کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 1959 کے بعد بھرتی ہونے والے ملازمین کو پینشن کی ادائیگی کے اصولوں میں تبدیلیاں کی گئیں تھیں، جن کے تحت انہیں غیر ملکی کرنسی میں ادائیگی کی اجازت نہیں دی گئی۔
اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس فیصلے کا مقصد ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کی حفاظت اور کرنٹ اکاؤنٹ کے توازن کو برقرار رکھنا ہے۔ حالیہ سالوں میں، ملکی معیشت کو غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی اور کرنٹ اکاؤنٹ کے دباؤ کا سامنا رہا ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو اس نوعیت کے سخت فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔پینشنرز، خاص طور پر وہ لوگ جو بیرون ملک مقیم ہیں، اس فیصلے پر ملا جلا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ کچھ پینشنرز نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ حکومت کے مالیاتی استحکام کے لیے یہ اقدام ضروری ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت معاشی دباؤ کے تحت زرمبادلہ کے ذخائر کو محفوظ رکھنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کر رہی ہے۔ پینشنرز کو اس حوالے سے مزید کسی وضاحت کی ضرورت ہو تو وزارت خزانہ سے رابطہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اس وضاحتی آفس میمورنڈم کے بعد، توقع کی جا رہی ہے کہ حکومت پینشن رولز کے دیگر پہلوؤں پر بھی نظرثانی کرے گی تاکہ مالیاتی صورتحال کے مطابق مزید تبدیلیاں کی جا سکیں۔

Leave a reply