ڈاکٹر اطہر محبوب ۔۔۔یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی ،تحریر:ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر

0
46
hafi masood ahar

شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دو حاضر میں جو افراد ملت کے مقدر کا ستارہ ثابت ہوئے ان میں سے ایک پروفیسرڈاکٹر اطہر محبوب ہیں ۔ وہ ممتاز ماہر تعلیم ہیں ، مثالی منتظم اور صنعتی ماہر کے طور پر منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ تعلیمی خدمات کے عوض تمغہ امتیاز بھی حاصل کرچکے ہیں۔ کوئی بھی انسان جو کسی شعبے سے منسلک ہو اس کی اہلیت اور قابلیت کا اندازہ اس کے کام اور کام کے نتائج سے کیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر اطہر محبوب کاکام اس امر کا اعلان ہے کہ وہ اپنے شعبے کے ساتھ بے حد مخلص ہیں ۔ ان کی علمی اور تدریسی مہارت کو دیکھنا ہو تو خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجیئنرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ( رحیم یار خان ) اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو دیکھا جاسکتا ہے ۔خواجہ فرید یونیورسٹی کا تو ڈاکٹر اطہر محبوب کو بانی وائس پرنسپل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ یہ بات معلوم ہے کہ رحیم یار خان ایک پسماندہ علاقہ ہے ، جو عرصہ دراز سے تعلیم اور شعور سے محروم چلا آرہا ہے۔جب حکومت نے رحیم یار خان میں یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ کیا تو اس کا پہلا وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کو مقرر کیا گیا ۔ یونیورسٹی کا بانی وائس چانسلر بننا جہاں ایک اعزاز تھا تو وہاں ایک بہت بڑا چیلنج بھی تھا ۔ اس لیے کہ یہاں مسائل و مشکلات کے پہاڑ تھے ۔ایک ایسا ملک جہاں سرکاری کام چیونٹی کی رفتار سے رینگتے ہیں اور کسی بھی پراجیکٹ کی تعمیر پر برسوں لگ جاتے ہیں ایسے ملک میں ڈاکٹر اطہر محبوب نے کام کرنے کی ایک نئی روایت متعارف کروائی ۔ 29مئی 2014ءکو یونیورسٹی کے قیام کا ایکٹ جاری کیاگیا جبکہ چار ماہ بعد ہی ڈاکٹر اطہر محبوب نے کلاسز کا آغاز بھی کردیا ۔جب شیخ الجامعہ علم کا ایسا شیدائی ہو تو اسے علم سے محبت کرنے والے ساتھی اور شاگرد بھی مل جاتے ہیں۔ چنانچہ
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا
کے مصداق چند ہی مہینوں میں طلبہ وطالبات کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ۔ کم وقت میں یونیورسٹی میں باقاعدہ تدریس کا آغاز۔۔۔۔اور ہزاروں کی تعداد میں طلبہ وطالبات ۔۔۔۔؟ یہ یقینا پاکستان کی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ تھا ۔ اس واقعہ نے ثابت کردکھایا کہ ڈاکٹر اطہر علم کے فروغ اور کام سے لگن کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ وہ قرون اولی کی علم دوست شخصیات کی طرح پاکستان میں تعلیمی انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح ” کام ۔۔۔۔۔کام ۔۔۔۔۔اور کام “ پر یقین رکھتے ہیں ۔

پروفیسر ڈاکٹر اطہر کی علم سے محبت اور خدمت کا دوسرا شاہکار اور یادگار واقعہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ہے ۔انھوں نے اپنے دور میں یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کےلئے بیشمارتاریخی اقدامات کئے ۔۔۔مثلاََ طلبہ وطالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کےلئے روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں ، لائق اور ذہین طلبہ کی حوصلہ افزائی کےلئے وظائف جاری کئے گئے،ایسے مفید ڈگری پروگراموں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا جن کی معاشرے میں بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے ، طلبہ وطالبات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر متعدد شفٹوں میں کلاسوں کا اجراء کیا گیا ، مختلف کیمپس میں ضروریات کے مطابق سہولیات میں اضافہ ہوا ، آمدو رفت کےلئے پہلے سے موجود ٹرانسپورٹ کی سہولیات میں اضافہ بھی کیا گیا ، صحت مند سرگرمیوں کے لئے کھیلوں اور دیگر ہم نصابی سرگرمیاں جاری کی گئیں ، طلبہ وطالبات کے دین کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے جامع الامام ابن کثیر سمیت یونیورسٹی کے مختلف کیمپس میں عالی شان مساجد بنائی گئیں ۔ ڈاکٹر اطہر محبوب برملا یہ بات کہا کرتے تھے میں ” اسلامیہ یونیورسٹی کو ایک اسم بامسمی تعلیمی ادارہ بنانا چاہتا ہوں ۔“
یہ وہ اقدامات تھے جنھوں نے یونیورسٹی کے معیار تعلیم کو چار چاند لگا دیے اور اس کی مقبولیت میں بھی بے حد اضافہ ہونے لگا ۔ کلاسیں تنگی داماں کا شکوہ کرنے لگیں ۔فیکلٹیز جو پہلے صرف چھ تھیں وہ13تک جاپہنچی ۔ پہلے کل وقتی اساتذہ 400تھے پھر ایک وقت آیاجب یہ تعداد 1400تک جاپہنچی ۔ پہلے طلبہ وطالبات کی تعداد صرف 13,000تھی جو 65,000ہزار تک جاپہنچی ۔

یہاں میں خصوصی طور پر ایک واقعہ بطور خاص قارئین کے گوش گزار کرنا چاہوں گا ۔ اس واقعہ کے راوی ڈاکٹر اکرم چوہدری ہیں جو سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ” میں گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمن کی پنجاب کی تمام جامعات کے وائس چانسلرز کے ساتھ میٹینگ میں موجود تھا۔ میں نے اپنے کانوں سے سنا گورنر پنجاب وائس چانسلرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آپ سب اپنی اپنی جامعات کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے روڈ میپ اسی طرح سے بنائیں جس طرح ڈاکٹر اطہر محبوب نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کابنا رکھا ہے “ ۔

یہ ہیں ڈاکٹر اطہر محبوب۔۔۔۔! اور یہ ہے۔۔۔۔ ان کی تعلیمی کاوشوں کا مختصر تذکرہ !
حقیقت یہ ہے کہ خواجہ فرید یونیورسٹی کی طرح ڈاکٹر اطہر نے اسلامیہ یونیورسٹی کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے بے حد محنت ہے ۔یہاں تک کہ اسلامیہ یونیورسٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے علاقے میں موجود بعض نجی تعلیمی اداروں اور مافیاز کے کاروبار مانند پڑنے لگ گئے ۔ اس کے ساتھ یہ خبریں بھی گردش کررہی تھیں کہ ڈاکٹر اطہر محبوب کو بطور وی سی مزید توسیع دی جائے گی ۔ چنانچہ ڈاکٹر اطہر محبوب کا دوسری ٹرم کےلئے راستہ روکنے کی خاطر ۔۔۔ایک بھیانک سازش تیار کی گئی ۔تاہم وہ جو کہتے ہیں جھوٹ کو دوام نہیں یہاں بھی یہی کچھ ہوا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے جسٹس سردار محمد ڈوگر کو بطور ٹربیونل جج نامزد کیا تو انھوں نے تحقیقات کے بعد یہ بتا دیا تھا کہ آئی یو بی ، ڈاکٹر اطہر محبوب اور انکی ٹیم کو بدنام کرنے کےلئے جو سکینڈل بنایا گیا وہ سب جھوٹ تھا اور اس میں جن افراد کو ٹارگٹ کیا گیا وہ سب شفاف کردار کے مالک ہیں ۔ڈاکٹر اطہر محبوب اور انکی ٹیم کو سازشیوں کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دیا گیا ،اور انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ ڈاکٹر اطہر محبوب کے بعد صرف ایک سال میں یونیورسٹی ویران ھوکر رہ گئی ہے۔ طلبہ کی تعداد نہ ھونے کے برابر ہے ۔
رکاوٹیں ہمیشہ باصلاحیت لوگوں کے راستے میں ہی کھڑی کی جاتی ہیں جیسا کہ ڈاکٹر اطہر محبوب ہیں ۔ وہ بہت باصلاحیت ہیں جبکہ اس وقت پنجاب کی بہت سی جامعات وائس چانسلرز شپ سے محروم چلی آرہی ہیں جن میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور بھی شامل ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے جامعات میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے انٹرویوز شروع کیے ہیں ۔اہلیان جنوبی پنجاب کی خواہش ہے، کہ یونیورسٹی کی گرتی ھوئی ساکھ کو بحال کرنے،اور یونیورسٹی کو نئے سرے سے آباد کرنے کے لیے دوبارہ ڈاکٹر اطہر محبوب کو اسلامیہ یونیورسٹی کا وی سی مقرر کیا جائے ۔اسلئے کہ
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
ڈاکٹر اطہر محبوب نے اس یونیورسٹی کو اپنے خون سے سینچا اور کی آبیاری کی ہے ۔ یونیورسٹی میں ان کی دوبارہ تعیناتی ان کی خدمات کا اعتراف بھی ہوگا اور یونیورسٹی کے لیے اعزاز بھی ہوگا۔ یونیورسٹی کا ہر گوشہ زبان حال سے ڈاکٹر اطہر محبوب کو کہہ رہا ہے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

Leave a reply