ریاض: سعودی عرب میں منشیات اور قتل کے جرائم میں ملوث سات افراد کو سزائے موت دے دی گئی ہے، جن میں ایک پاکستانی شہری بھی شامل ہے۔ بدھ کو دی گئی سزاؤں کے بعد رواں سال سعودی عرب میں سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد 236 ہوگئی ہے، جو کہ ایک انتہائی اہم سنگ میل ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے رپورٹ کیا کہ سزائے موت پانے والے افراد میں سے پانچ افراد منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث تھے۔ سعودی وزارت داخلہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ جنوبی صوبے عسیر میں یمن سے تعلق رکھنے والے چار شہریوں، یحییٰ لطف اللہ، علی عاذب، احمد علی، اور سالم نہاری، کو حشیش کی اسمگلنگ کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔ پاکستانی شہری بھی اسی الزام کے تحت سر قلم کی سزا پانے والوں میں شامل تھا۔ ان واقعات کے بعد منشیات کے مقدمات میں سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد 71 ہوگئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکومت منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف اپنے سخت مؤقف پر کاربند ہے۔
سعودی عرب گزشتہ چند برسوں سے ایمفیٹامائن سے تیار ہونے والی منشیات "کیپٹاگون” کی اسمگلنگ کا بڑا ہدف بن چکا ہے، جو زیادہ تر شام اور لبنان جیسے جنگ زدہ علاقوں سے آتی ہے۔ سعودی حکام نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے گزشتہ برس ایک وسیع پیمانے پر انسداد منشیات مہم کا آغاز کیا تھا، جس کے تحت چھاپے اور گرفتاریاں کی گئیں۔ یہ مہم خاص طور پر دو سال قبل سزائے موت پر عائد پابندی کے خاتمے کے بعد زیادہ شدت اختیار کرگئی، جس کے بعد سعودی عرب میں منشیات کے اسمگلرز کے خلاف سزاؤں پر تیزی سے عملدرآمد ہونے لگا۔ سعودی وزارت داخلہ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ ایسے سخت اقدامات کے بغیر منشیات کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ کو کنٹرول کرنا مشکل ہے۔سزاؤں میں قتل کے جرم میں ملوث دو سعودی شہریوں کے بھی سر قلم کیے گئے۔ سعودی وزارت داخلہ کے مطابق یہ سزائیں قتل کے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے دی گئیں اور مدعا علیہان کو تمام قانونی عمل اور اپیلوں کا حق دیا گیا تھا۔
سعودی عرب میں سزائے موت پر عملدرآمد کے بارے میں عالمی سطح پر تنقید جاری ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، خاص طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل، نے سعودی عرب میں سزائے موت کے زیادہ استعمال کو غیر ضروری اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اصولوں کے خلاف قرار دیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2023 میں چین اور ایران کے بعد سعودی عرب وہ تیسرا ملک تھا جہاں سب سے زیادہ قیدیوں کو سزائے موت دی گئی۔سعودی حکومت کا مؤقف ہے کہ سزائے موت امن و امان کی بحالی کے لیے ضروری ہے اور ہر کیس میں قانونی چارہ جوئی کے مکمل عمل کے بعد ہی سزاؤں پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ سعودی حکومت کے مطابق ایسے سخت قوانین اور سزائیں ملک میں امن و امان اور جرائم کے خلاف دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔

سعودی عرب میں پاکستانی شہری سمیت سات افراد کے سر قلم،
Shares: