ڈیرہ غازی خان: ٹیچنگ ہسپتال میں ملنے والے کٹے سر کا معمہ حل نہ ہوسکا، سیکیورٹی اہلکار کہاں لے گئے؟

ڈیرہ غازی خان(باغی ٹی وی رپورٹ) علامہ اقبال ٹیچنگ ہسپتال میں کٹا ہوا سر ملنے کا انوکھا واقعہ، شکوک و شبہات میں اضافہ،3 نومبر 2024 کو ڈیرہ غازی خان میں ایک ہولناک اور عجیب واقعہ سامنے آیا جب ریسکیو 1122 کنٹرول روم کو اطلاع ملی کہ علامہ اقبال ٹیچنگ ہسپتال کی نئی بلڈنگ میں ایک بچے کا کٹا ہوا سر پڑا ہے۔ اطلاع پر فوری ردعمل دیتے ہوئے ریسکیو کی ایک ٹیم اور ایمبولینس جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں اور پولیس کو بھی اطلاع دے دی گئی۔ موقع پر موجود عملے کو بغیر دھڑ کے ایک کٹا ہوا سر ملا جو نہایت پراسرار حالات میں وہاں موجود تھا۔ اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر ہسپتال کے سکیورٹی عملے نے پولیس کا انتظار کیے بغیر سر کو اپنے قبضے میں لے لیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا، جس سے معاملے پر مزید سوالات اٹھ گئے۔

بچے کا باقی جسم یا دھڑ کہاں ہے؟ کیا اسے کسی اور جگہ چھپا دیا گیا یا پھر اس کے ساتھ کسی مجرمانہ فعل کا ارتکاب کیا گیا؟یہ کٹا ہوا سر کس کا ہے؟ کیا اس کی شناخت یا عمر کا کوئی پتہ چلا ہے؟اس سوال کا جواب تلاش کرنا بھی ضروری ہے کہ کٹا ہوا سر ہسپتال کی نئی بلڈنگ میں کیسے پہنچا؟کیا بچہ مردہ حالت میں تھا یا اسے زندہ حالت میں کسی نے نقصان پہنچایا؟ اگر یہ سر گائنی وارڈ سے منسلک ہے تو زچہ کون تھی اور اس کا کیا کردار ہو سکتا ہے؟کیا بچے کے جسم کو آوارہ جانوروں نے کھا لیا یا وہ کہیں اور منتقل کر دیا گیا؟کہیں بچے کی باڈی کو غیرقانونی طورپر میڈیکل کے مقاصد کیلئے استعمال تو نہیں کیا گیا۔ اس امر پر بھی شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ کیا اس کٹے ہوئے سر کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اور اگر کیا گیا تو اس کی رپورٹ کیا ہے؟ہسپتال انتظامیہ اور سکیورٹی عملے کے کردار پر سوالات ہیں کہ ہسپتال کے سکیورٹی عملے نے سر کو بغیر پولیس کے آنے کے کیوں اٹھایا؟ ہسپتال انتظامیہ اور خاص طور پر ایم ایس ڈاکٹر عبدالرحمن عامر قیصرانی کے کردار پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اس واقعے کی سوشل میڈیا پر خبر پھیلتے ہی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نے رپورٹ طلب کر لی مگر تاحال کوئی پیش رفت یا رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ ہسپتال انتظامیہ پر اس معاملے کو دبانے کی کوشش کرنے کا الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے،اس معاملے کی مکمل اور شفاف تحقیقات انتہائی ضروری ہیں۔

یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ تھانہ سول لائن نے کیا قانونی کارروائی کی اور کرائم سین یونٹ کوہسپتال میں بلایا گیا؟ ،اگرکرائم سین یونٹ موقع پر پہنچا ہے توکیاانہوں نے تمام پہلوں کا جائزہ لیا؟بچے کے سر کا پوسٹ مارٹم کرایا اور سی سی ٹی وی کیمروں کے ریکارڈ کو چیک کیا؟۔ شہریوں نے وزیراعلی پنجاب اور اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اس افسوسناک واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آزادانہ تحقیقات کو یقینی بنایا جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کا سدباب ہو سکے۔

Comments are closed.