نریندر مودی اور امیت شاہ فلم”سابرمتی رپورٹ“ کی تعریفیں کیوں کرنے لگے؟
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے بالی ووڈ اداکار وکرانت میسی کی نئی فلم ”سابرمتی رپورٹ“ کی تعریف کی ہے۔
باغی ٹی وی :فلم 2002 میں گجرات کے گودھرا میں ٹرین کو جلانے کے واقعے کے بعد کی کہانی بیان کرتی ہےسنہ 2002 میں گودھرا ٹرین آتشزدگی پر مبنی فلم رواں ماہ 15 نومبر کو ریلیز ہوئی جس میں وکرانت میسی نے ایک صحافی کا کردار ادا کیا،”سابرمتی رپورٹ“ ریلیز ہونے کے بعد ایکس پر ایک پوسٹ شئیر کی-
پوسٹ میں امیت شاہ نے لکھا کہ فلم ”سابرمتی رپورٹ“ بے مثال جرات کے ساتھ غالب نظام کو جھنجھوڑتی ہے اور اس خوفناک واقعہ کے پیچھے کی سچائی کو بے نقاب کرتی ہےکوئی کتنا بھی غالب نظام جتنی چاہے کوشش کرلے، مگر وہ سچ کو ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں چھپا نہیں سکتا۔
فلم کے لیے امیت شاہ کی تعریف پی ایم مودی کی جانب سے فلم کی تعریف کرنے کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے، یہ کہا کہ "جعلی بیانیہ صرف ایک محدود مدت تک برقرار رہ سکتا ہے”۔
نریندر مودی نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا تھا کہ یہ اچھی بات ہے کہ سچ سامنے آرہا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ عام لوگ اسے دیکھ سکیں، ایک جھوٹی کہانی صرف ایک محدود مدت تک چل سکتی ہے، آخر کار حقائق ہمیشہ سامنے آتے ہیں’۔
بی جی پی قیادت کے اس فلم کی پروموشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور مودی اور امیت شاہ کی جانب سے باقاعدہ پوسٹ کرکے اس فلم کی تعریف کرنے کی اصل وجہ فلم کا متنازع موضوع ہے جو مودی کے سیاسی بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔
واضح رہے کہ گودھرا ٹرین حادثہ 27 فروری 2002 کی صبح اس وقت پیش آیا، جب ایودھیا سے واپس آنے والے 59 ہندو یاتری اور کارسیوک گجرات کے گودھرا ریلوے اسٹیشن کے قریب سابرمتی ایکسپریس کے اندر آگ لگنے سے ہلاک ہو گئے،اس حادثے کے فوراً بعد گجرات فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر تشدد اور قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا۔
موجودہ وزیراعظم نریندر مودی اُس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے جنہوں نے اپنی انتہاپسندانہ سیاست کے فروغ کیلئے مسلمانوں کے خلاف ان فسادات کو خوب ہوا دی، جس کی وجہ سے وہ آج تک ”گجرات کے قصائی“ کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس حادثے کے فوراً بعد ریاست گجرات کی بی جے پی حکومت کے تحت قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن نے 2008 میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ٹرین میں یہ آگ ایک ہزار مسلمانوں پر مشتمل ہجوم نے طے شدہ منصوبے کے تحت لگائی تھی۔
اس کے برعکس وزارت ریلوے کے تحت قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن نے 2006 میں شائع کردہ اپنی رپورٹ میں آتشزدگی کے اِس واقعے کو محض ایک حادثہ قرار دیا تھا، تاہم گجرات ہائی کورٹ نے اس کمیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے تحقیقات کے یہ نتائج منسوخ کر دیئے تھے،بعدازاں ایک غیر سرکاری تنظیم کی آزادانہ تحقیقات نے بھی اس مؤقف کی تائید کی تھی کہ یہ آگ محض ایک حادثہ تھی۔
فروری 2011 میں ٹرائل کورٹ نے سرکاری تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر انحصار کرتے ہوئے 31 مسلمانوں کو گودھرا ٹرین میں آگ لگانے کا مجرم قرار دیا تھا 2017 میں گجرات ہائی کورٹ نے 11 مجرموں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا اور باقی 20 کو سنائی گئی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا، اس حادثے کے اصل حقائق آج بھی متنازع ہیں تاہم انتہاپسند جماعت بی جے پی ہمیشہ مسلم مخالف مؤقف کی تائید و ترویج کرتی نظر آتی ہے۔