چھٹیاں حل نہیں چھٹیوں کا حل نکالئے
ازقلم غنی محمود قصوری
اس وقت صوبہ پنجاب کے بیشتر اضلاع شدید سموگ کی لپٹ میں ہیں جس کی بدولت سمارٹ لاک ڈاؤن ہے اور بچوں کو سکول سے چھٹیاں ہیں یہ چھٹیاں 24 نومبر تک تھیں جنہیں موسم میں بہتری کے باعث ختم کر دیا گیا ہے اور سکول لاہور ملتان کے علاوہ دیگر اضلاع میں تعلیم کیلئے سکول کھول دیئے گئے ہیں کیونکہ لاہور اور ملتان میں سموگ کی شدت زیادہ ہے اس لئے وہاں سکول بدستور بند ہیں

ایک سال میں 365 دن ہوتے ہیں جبکہ 52 ہفتے ہوتے ہیں،اس وقت پاکستان کے سرکاری سکولوں میں ہفتہ اور اتوار کی سرکاری چھٹی ہوتی ہےیعنی ایک سال میں بچوں کو 104 چھٹیاں سرکاری ہیں اس کے علاوہ 90 دن کی چھٹیاں پنجاب میں گرمیوں کی ہوتی ہیں مذید دسمبر میں 10 چھٹیاں ہوتی ہیں اس کے علاوہ ہر ضلع میں تقریباً 1 سرکاری چھٹی سالانہ ہوتی ہے جو کہ کسی عرس، تقریب وغیرہ پر ضلعی انتظامیہ کی طرف سے دی جاتی ہے،اس سب کے علاوہ بچوں کی صحت کے لحاظ سے کم از کم دو ماہ بعد ایک بچہ بوجہ بیماری بھی چھٹی کرتا ہے،نیز اس کے علاوہ بھی معاشرتی طرز زندگی کیلئے شادی بیاہ،فوتگی و دیگر امور کے باعث بھی چھٹی کرنی پڑتی ہے

اگر جنرل طور پر دیکھا جائے تو سرکاری سکول کے بچے 365 دنوں میں سے بغیر کسی ناغے کے 160 دن سکول جاتے ہیں اگر بیماری و دیگر چھٹیوں کو ڈال لیا جائے تو بمشکل 150 دن بنتے ہیں ان میں سے اگر بیماری و دیگر چھٹیوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو سرکاری سکولوں کے بچے محض 150 دن ہی بمشکل سکول جاتے ہیں،جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ سکولوں میں ہفتہ کی صرف ایک چھٹی اتوار کو ہوتی ہے نیز سخت گرمی میں بھی باوجود گورنمنٹ کے حکم کے بچوں کو سادی کپڑوں میں سکول آنے کا پابند کیا جاتا ہے اور اسے اکیڈمی ٹائم کا نام دے کر پڑھایا جاتا ہے
یعنی سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کی چھٹیوں میں زمین و آسمان سا فرق ہے.جس کے باعث بیشتر ماں باپ نا چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھاتے ہیں تاکہ ان کے جگر کے ٹکڑے حصول تعلیم بغیر ناغے کے جاری رکھیں بیشتر غریب ماں باپ بھی بہت تنگدستی میں قرض اٹھا کر اور اپنے کھانے پینے کے اخراجات کم کرکے اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں جس کی وجہ آئے روز کی چھٹیاں ہی ہیں

ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کا شارٹ کٹ اور عارضی حل نکالتے ہیں مستقبل حل نہیں نکالتے جس کے باعث مسائل کم نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں پہلے موسم گرما و سرما کی چھٹیاں تھیں اب چند سالوں سے سموگ کی چھٹیاں الگ سے ہونے لگی ہیں

ہم بات شروع کرتے ہیں موسم گرما کی چھٹیوں کی اگر بچوں کو 90 دن چھٹیاں کروانے کی بجائے ان دنوں صبح فجر کے بعد سکول ٹائم کو شروع کیا جائے اور ہر کلاس روم کو یو پی ایس و سولر سسٹم سے روم کولرز و ائیر کنڈیشنر سے ہوا دار کرکے ٹمپریچر لیول کنٹرول کیا جائے تو میرے خیال سے چھٹیاں کروانے کی نوبت ہی نا آئے گی،سوچا جائے تو اگر ہمارے ملک میں ایک 16 سکیل کے اکیلے آفیسر کے کمرے میں 2 ٹن کا اے سی چلتا ہے تو کیا وہاں 70 بچوں کی کلاس میں 3 ماہ ایک اے سی چلا کر بچوں کی پڑھائی کو جاری نہیں رکھا جا سکتا؟

اسی طرح ہفتہ میں دو چھٹیوں کی سمجھ آج دن تک کسی کو نہیں آئی کہ اس میں کیا حکمت ہے اگر اس میں اتنی ہی خیر ہے تو پھر پرائیویٹ سکولوں میں ہر ہفتے دو چھٹیاں کیوں نہیں کروائی جاتیں؟ان دنوں سموگ کی چھٹیوں کو دیکھا جائے تو سموگ سے بچاؤ کی خاطر چھٹیاں کروا کر بچے گھروں میں قطعاً سموگ سے نہیں بچتے کیونکہ ہمارے ہاں سرکاری سکول کشادہ اور ہوا دار ہیں جبکہ اس مہنگائی کے دور میں سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کے پاس رہنے کو چھوٹے چھوٹے مکان ہیں جن میں درخت نا ہونے کے برابر ہیں جبکہ اس کے برعکس ہر سرکاری دفتر میں وافر مقدار میں درخت موجود ہوتے ہیں جو ماحول کو آلودہ ہونے سے بچاتے ہیں

ہر سال سموگ سے بچاؤ کی خاطر چھٹیاں تو کی جاتی ہیں مگر سموگ کو کنٹرول کرنے کیلئے تدابیر نہیں کی جاتیں،جہاں سموگ سے بچنا ان بچوں کیلئے ضروری ہے وہاں 60 سال سے زائد عمر کے اس مزدور کے لئے بھی بچنا اتنا ہی ضروری ہے کہ جس کا لخت جگر اس کی دن رات کی کمائی سے سکول پڑھنے جاتا ہے،سموگ سے 16 سالہ میٹرک کا طالب علم تو بچنے کے طریقے جانتا ہے مگر اس کا 60 سے 70 سالہ بوڑھا اور کمزور باپ نہیں جانتا کہ کس طرح سموگ سے بچنا ہے وہ ہر چیز کی پرواہ کئے بغیر اپنے بچوں کی روزی روٹی اور تعلیم کی خاطر مزدوری کرتا ہے

اگر ریاست کا فرض سموگ سے ان بچوں کو بچانا ہے تو پھر ان بزرگوں کو سموگ سے بچانا بھی ریاست کا فرض ہے سو اس لئے ضروری ہے کہ سموگ کی چھٹیاں کروانے کی بجائے سموگ کے بننے کے عمل کو روکا جائے،اگر دیکھا جائے تو سموگ پھیلانے میں پنجاب اربن یونٹ لاہور کی رپورٹ کے مطابق دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں فضائی آلودگی پھیلانے میں سب سے آگے ہیں،یعنی کہ شعبہ ٹرانسپورٹ کا فضائی آلودگی پھیلانے میں 83.15 فیصد کردار ہے اسی طرح صنعتی سرگرمیاں سموگ پھیلانے میں دوسرے نمبر پر ہیں یعنی انڈسٹریز کے دھوئیں کا سموگ میں حصہ 9.07 فیصد ہے، اسی طرح فضائی آلودگی پھیلانے میں زرعی فضلہ جلانے کا کردار 3.9 فیصد ہے اورکچرا جلانے کا حصہ سموگ میں 3.6 فیصد ہے
کمرشل عمارتوں کی سرگرمیوں کا فضائی آلودگی میں کردار 0.14 فیصد ہےاور گھریلو سرگرمیاں 0.11 فیصد فضائی آلودگی یعنی سموگ میں حصہ ڈالتی ہیں
یعنی کہ قصہ مختصر سموگ کی چھٹیوں کو ختم کرکے سموگ کے دن شروع ہونے سے پہلے ہی ٹرانسپورٹ گاڑیوں کے دھوئیں پر کنٹرول کیا جائے
کچرا جلانے پر پابندی لگائی جائے اور لوگوں میں نجی سواری کی بجائے مشترکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے پر آگاہی دی جائے
نیز سموگ سے بچاؤ کیلئے گھر سے باہر نکلتے فیس ماسک لازم قرار دیا جائے

کارخانوں کے دھوئیں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی سے کم آلودہ کیا جائے جس طرح بھٹہ خشت پر زگ زیگ سسٹم لازم ہے اسی طرح انڈسٹری میں بھی زگ زیگ کے بغیر انڈسٹری چلانے پر جرمانے کئے جائیں،ٹرانسپورٹ کو شمسی و بیٹری سسٹم پر منتقل کیا جائے تاکہ دھواں کم سے کم بنے
سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سموگ سے متاثرہ لوگوں کی تعداد نا ہونے کے برابر ہے جبکہ دوسرے بڑے شہر لاہور میں سب سے زیادہ حالانکہ آبادی و صنعتی لحاظ سے کراچی بہت بڑا شہر ہے اور لاہور اس سے چھوٹا تو پھر کچھ تو کمی کوتاہی ہے نا کہ بڑا شہر سموگ سے متاثر نہیں اور اس سے چھوٹا شہر متاثر ہے

گورنمنٹ کو چائیے کہ چھٹیاں ختم کرکے چھٹیوں کا حل نکالے تاکہ بچوں کے والدین سرکاری سکولوں پر اعتماد اور یقین کریں بجائے پرائیویٹ سکولوں کے پڑھانے کے اپنے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھائیں

Shares: