روسی صدر ولادیمیر پوتن کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بیان: یوکرین جنگ کا حل ممکن ہے
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک "ذہین اور تجربہ کار” سیاست دان ہیں، جو یوکرین میں جاری جنگ کا حل نکالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پوتن نے کہا کہ ان کے خیال میں ٹرمپ یوکرین کے بحران کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں گے۔
پوتن نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ صدر جو بائیڈن کی حکومت نے روس کے خلاف جو اقدامات کیے ہیں، وہ نہ صرف روس کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں بلکہ ان کے خیال میں یہ اقدامات آئندہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے مزید مسائل کا باعث بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بائیڈن کی جانب سے میزائل کی فراہمی جیسے فیصلوں سے روس اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی بڑھے گی، لیکن ان کا ماننا ہے کہ جنوری میں جب ٹرمپ اقتدار سنبھالیں گے، حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔
پوتن نے مزید کہا، "جہاں تک میں تصور کر سکتا ہوں، نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک ذہین اور تجربہ کار شخص ہیں۔ وہ سیاسی میدان میں اپنا اہم مقام رکھتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ وہ اس بحران کا کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے۔” پوتن نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران ہونے والے دو قاتلانہ حملوں کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ ٹرمپ نے ان مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے امریکی صدر کے عہدے تک پہنچنے کا سنگین امتحان پاس کیا ہے۔
یوکرین میں جنگ کے حوالے سے پوتن نے روس کی جانب سے نئے بیلسٹک میزائل، جنہیں "اورشینک” کہا جاتا ہے، کے استعمال کی دھمکی دی۔ پوتن کا کہنا تھا کہ روس اپنے اختیار میں موجود تمام وسائل کو استعمال کرے گا، اور اس کے نئے میزائل یوکرین کی فوج، فوجی صنعتی تنصیبات اور فیصلہ ساز مراکز کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔”ہم اورشینک کے استعمال کو (یوکرائنی) فوج کے خلاف، فوجی صنعتی تنصیبات کے خلاف، یا فیصلہ سازی کے مراکز کے خلاف، بشمول کیف میں، استعمال کریں گے۔ یہ واضح ہے کہ کیف کے حکام ہماری اہم تنصیبات پر حملے کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔” پوتن نے مزید کہا کہ روس ان مراکز کو نشانہ بنائے گا جو ان کے خیال میں یوکرین کی جنگ کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
پوتن نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے ایک سوویت دور کے لطیفے کا حوالہ دیا جس میں موسم کی پیش گوئی کے بارے میں کہا جاتا تھا: "آج، دن کے وقت، کچھ بھی ممکن ہے۔” اس کا مطلب یہ تھا کہ روس کی خارجہ پالیسی اور اس کی حکمت عملی میں کوئی بھی تبدیلی ہو سکتی ہے، اور اسی طرح یوکرین جنگ کے حوالے سے بھی حالات تیزی سے تبدیل ہو سکتے ہیں۔
پوتن کے اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ روس امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو پیچیدہ سمجھتا ہے اور یوکرین میں جنگ کے حل کے لیے وہ ٹرمپ کی قیادت میں ممکنہ تبدیلی کو امید کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ روس نے ہمیشہ یوکرین کے معاملے میں اپنی حکمت عملی کو سخت رکھا ہے، اور اس بات کا کوئی اشارہ نہیں کہ وہ اپنے موقف میں کسی نرم رویے کا مظاہرہ کرے گا۔