امریکی صدر جو بائیڈن نے شام میں 2012 سے قید فری لانس صحافی آسٹن بینیٹ ٹائس کو گھر واپس لانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ بائیڈن نے اتوار کے روز اسد حکومت کے خاتمے پر اپنے خطاب میں کہا کہ "ہمیں یہ بات یاد ہے کہ شام میں کچھ امریکی شہری بھی موجود ہیں، جن میں آسٹن بینیٹ ٹائس بھی شامل ہیں، جو 12 سال سے زیادہ عرصہ قبل قید ہوئے تھے۔ ہم اپنے عزم پر قائم ہیں کہ ہم انہیں ان کے خاندان کے پاس واپس لائیں گے۔”
آسٹن بینیٹ ٹائس 2012 میں شام میں رپورٹنگ کے دوران اغوا ہو گئے تھے اور اس وقت سے وہ شام میں قید ہیں۔بائیڈن نے مزید کہا، "ہمیں یقین ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں واپس لے آ سکتے ہیں، لیکن ابھی تک ہمارے پاس اس بات کا کوئی براہ راست ثبوت نہیں ہے۔ اس کے باوجود، ہم اسد حکومت کو اس معاملے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔” جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ ٹائس کو بازیاب کرانے کے لیے کسی فوجی کارروائی کی منظوری دیں گے، تو بائیڈن نے جواب دیا، "ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کہاں ہیں۔ ہم انہیں باہر نکالنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے لیے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کہاں ہیں۔”
آسٹن بینیٹ ٹائس کے والدین، مارک اور ڈیبرا ٹائس نے سی این این کو دیے گئے ایک بیان میں کہا، "ہم بے تابی سے اس لمحے کا انتظار کر رہے ہیں جب آسٹن بینیٹ ٹائس آزاد ہو کر واپس اپنے گھر آئے گا۔ ہم ہر اس شخص سے درخواست کرتے ہیں جو اس میں مدد کر سکتا ہے کہ وہ آسٹن کی مدد کرے تاکہ وہ اپنے خاندان کے پاس سلامت واپس پہنچ سکے۔”
سی این این کی ایک سابقہ رپورٹ کے مطابق، امریکی حکام نے جمعرات کو شام کی اپوزیشن فورسز سے رابطہ کیا تھا تاکہ ٹائس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکیں اور ان کی موجودگی کے بارے میں کوئی سراغ مل سکے۔ ٹائس کی واپسی کے لیے امریکی حکومت کی جانب سے مسلسل کوششیں جاری ہیں اور یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر بھی زیرِ بحث ہے۔