بھارتی پنجاب میں گندم کی پیداوار میں کمی
بھارتی پنجاب، جو کبھی بھارت کا اناج کا سب سے بڑا مرکز تھا، آج منشیات اور مذہبی تبدیلی کی لعنت میں گھرا ہوا ہے۔ حالیہ برسوں میں پنجاب میں منشیات کا پھیلاؤ بھی تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ اس تبدیلی کے اثرات نہ صرف معاشرتی بلکہ اقتصادی طور پر بھی محسوس ہو رہے ہیں۔
پنجاب کا زراعتی شعبہ، جو کبھی بھارت کے لئے اناج کا اہم ذریعہ تھا، آج بحران کا شکار ہے۔ ریاست نے گندم کی پیداوار میں بڑی کمی دیکھی ہے اور اب یہ بھارت کی سب سے بڑی پیداوار کرنے والی ریاستوں میں تیسری پوزیشن پر آ چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پنجاب کے کسانوں کو زراعت میں مشکلات کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے وہ دیگر مسائل میں الجھ کر ریاست کی معیشت پر بوجھ بن گئے ہیں۔کسان مودی سرکار کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے آئے روز احتجاج کرتے رہتے ہیں
پنجاب کے زراعتی شعبہ کی موجودہ حالت پر روشنی ڈالتے ہوئے محکمہ زراعت و کسان فلاح نے 2023-24 کے لئے اہم فصلوں کی پیداوار کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، اس سال گندم کی پیداوار میں کمی دیکھی گئی ہے اور پنجاب اب گندم کی پیداوار میں بھارت کے تین بڑے ریاستوں میں تیسری پوزیشن پر آگیا ہے۔یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2022-23 کے دوران ربی سیزن کو "ربی” اور "گرمی” کے طور پر تقسیم کیا گیا ہے، جس کے بعد گرمی کی پیداوار کو تیسری ایڈوانس اسٹی میٹ میں شامل کیا جائے گا۔
tab118
منشیات کے پھیلاؤ نے پنجاب میں ایک نئی بیماری کی شکل اختیار کرلی ہے، جس کی وجہ سے نوجوان نسل میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ متعدد گاؤں منشیات کے عادی ہو چکے ہیں، اور اس کا اثر معاشرتی زندگی پر بھی پڑ رہا ہے۔پنجاب میں اس تبدیلی کے پیچھے کچھ مذہبی اور سماجی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ عیسائیت کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک وجہ یہاں کی معاشی مشکلات اور معاشرتی ڈھانچے کی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ پنجاب کے زراعتی بحران اور منشیات کے بڑھتے ہوئے مسئلے سے نمٹنے کے لئے حکومت کو فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، معاشرتی اور مذہبی تبدیلیاں بھی ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئی ہیں، جو کہ ریاست کے لئے ایک طویل مدتی مسئلہ بن سکتا ہے۔
پنجاب، جو ایک وقت میں بھارت کی زرعی طاقت تھا، اب منشیات کی لعنت اور مذہبی تبدیلیوں کی نظر ہو چکا ہے۔ گندم کی پیداوار میں کمی اور معاشی بحران نے لوگوں کو مختلف راستوں پر گامزن کیا ہے، جن میں منشیات کا استعمال اور مذہبی تبدیلی بھی شامل ہیں۔ اس صورت حال میں پنجاب کے لئے حکومت کی جانب سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ معاشی اور سماجی بحرانوں کا حل نکالا جا سکے۔بھارتی پنجاب میں کسان مودی کے بنائے ہوئے کالے قوانین کی وجہ سے دھرنوں پر مجبور ہیں۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے مودی سرکار نے کالے قوانین بنا کر ان کے ساتھیوں کو دھرنوں پر مجبور کر رکھا ہے، سانوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں فصلوں کی بہتر قیمت ادا کی جائے۔
بھارت کی حکومت ہر سال 20 فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت (مینیمم اسپورٹ پرائس) مقرر کرتی ہے۔ تاہم حکومتی ادارے ان میں سے صرف چاول اور گندم طے کردہ امدادی قیمت پر کسانوں سے حاصل کرتے ہیں۔ لہذٰا اس سے صرف سات فی صد کسان ہی فائدہ اُٹھا پاتے ہیں۔حکومتی ادارے چاول اور گندم کی بڑی مقدار فوڈ ویلفیئر پروگرام کے لیے ذخیرہ کرتے ہیں۔ بھارتی حکومت لگ بھگ 80 کروڑ افراد کو اس پروگرام کی مد میں مفت چاول اور گندم فراہم کرتی ہے۔یہ پروگرام دنیا کا سب سے بڑا ویلفیئر پروگرام سمجھا جاتا ہے جس کے لیے حکومت سالانہ 24 ارب ڈالر سے زائد کی سبسڈی دیتی ہے،بھارتی حکومت نے 2021 میں کسانوں کے احتجاج کے بعد متنازع زرعی قوانین منسوخ کرتے ہوئے کاشت کاروں اور حکومتی اہلکاروں کی ایک کمیٹی بنائی تھی۔ کمیٹی کو یہ مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ وہ گندم اور چاول کے ساتھ ساتھ دیگر فصلوں کے لیے حکومت کی طرف سے مقرر کی گئی امدادی قیمت کو یقینی بنائے۔کسانوں کا یہ الزام ہے کہ اس سارے معاملے میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جس سے کسانوں کو نقصان ہو رہا ہے۔پالیسی ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ تمام زرعی پیداوار کو ریاست کی مقرر کردہ کم از کم امدادی قیمت پر خریدنا قابلِ عمل نہیں ہے۔
190 ملین پاؤنڈ ریفرنس،فیصلہ ایک بار پھر مؤخر،جمعہ کو سناؤں گا، جج
شہرہ آفاق فلم "مولاجٹ” "بازار حسن” کے خالق فلمساز محمد سرور بھٹی وفات پا گئے