ججز کی سنیارٹی پر تنازعہ،اٹارنی جنرل کا مؤقف بھی آ گیا
![mansor awan](https://baaghitv.com/wp-content/uploads/2024/05/mansor-awan-jpeg.webp)
قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سردار سرفراز ڈوگر کی سنیارٹی کے معاملے پر اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کا مؤقف چیف جسٹس پاکستان سے برعکس ،حقائق سامنے آ گئے
میڈیا رپورٹس کے مطابق اٹارنی جنرل کا تحریری طور پر جوڈیشل کمیشن میں اپنایا گیا موقف سامنے آگیا، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے صحافیوں سے ملاقات میں کہا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز کی سنیارٹی لسٹ میں جسٹس سرفراز ڈوگر کا نام نہیں ہونا چاہیے تھا، چیف جسٹس نے صحافیوں سے ملاقات میں کہا تھا اٹارنی جنرل نے میرے موقف کی تائید کی تھی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اور بات کہی تھی اور تحریری طور پر بھی مؤقف جمع کرایا اور اس کے منٹس بھی جاری کیے جائیں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیئرمین جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کے تحفظات سے متفق نہیں، ہائی کورٹ سے جج کا ٹرانسفر عارضی نہیں ہوتا۔ جج کا ٹرانسفر پبلک انٹرسٹ کے تحت کیا گیا، جس کیلئے صدر مملکت،متعلقہ چیف جسٹسز ہائی کورٹ سے مشاورت کی گئی، جسٹس سرفراز ڈوگر سے کہا گیا وہ مفاد عامہ کے تحت اپنی رضا مندی کا اظہار کریں، ٹرانسفر ہونے والے جج نے مفاد عامہ کے تحت ہی تبادلے کیلئے رضامندی ظاہر کی نہ ہی ذاتی مفاد کیلئے، جسٹس سرفراز ڈوگر کی سینارٹی سب سے نیچے نہیں کی جاسکتی، نہ ہی جج سول سرونٹ ہوتا ہے ،سنیارٹی سے متعلق سول سرونٹ ملازمین کے رولز کا اطلاق اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر نہیں ہو سکتا، نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کے ججز سرول سرونٹ ہوتے ہیں، آئین پاکستان نے ججز کیلئے الگ سے جج کی سروس پر شرائط و ضوابط طے کر رکھے ہیں، کسی جج کی سینارٹی کا معاملہ جوڈیشل کمیشن میں نہیں اٹھایا جاسکتا، سینارٹی کا معاملہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست دائر کرکے ہی عدالتی سائیڈ پر طے ہو سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب ایک جج ایک ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوکر دوسری ہائیکورٹ میں آتا ہے اسے نئے حلف لینے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، آئین میں بھی کہیں نہیں لکھا کہ ایک جج ٹرانسفر ہوکر دوبارہ حلف لے گا، ایک جج کی نئی تقرری اور تبادلے میں فرق ہے، آرٹیکل 202 کے تحت جب ایک جج کا تقرر ہوتا ہے تو اسے تبادلے پر نئے حلف کی ضرورت نہیں ہے