بجٹ 2025-26 ریونیو کے نام پر عوام کا معاشی قتل!
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفٰی بڈانی
پاکستانی عوام کی معاشی حالت دن بہ دن ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور توانائی کے بڑھتے نرخوں نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اور اب آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ کی تیاریوں نے ان زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کا بندوبست کر لیا ہے۔ حکومت اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان جاری مذاکرات کا مقصد 700 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز اکٹھا کرنا ہے اور یہ بوجھ براہ راست عوام کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ، پنشنرز، تمباکو اور مشروبات کے شعبے، ہر کوئی اس نئے ٹیکس کے طوفان کی زد میں ہے۔ اس کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات پر نئی لیوی، بجلی کے بلوں میں ڈیبٹ سروس سرچارج اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ عوام کے لیے ایک اور معاشی دھچکا ثابت ہوگا۔ دل دکھتا ہے یہ سوچ کر کہ جن بزرگ شہریوں نے اپنی زندگی ملک کی خدمت میں گزاری، ان کے منہ سے بھی اب نوالہ چھینا جا رہا ہے۔

حکومت کی طرف سے پنشنرز پر انکم ٹیکس عائد کرنے کا عندیہ ظلم کی نئی داستان رقم کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں بزرگ شہریوں کو ٹیکس چھوٹ سمیت کئی مراعات دی جاتی ہیں، مگر پاکستان میں یہ طبقہ نہ صرف سہولیات سے محروم ہے بلکہ معمول کے ٹیکسز بھی اس سے پورے وصول کیے جاتے ہیں۔ اب ان کی محدود پنشن پر انکم ٹیکس لگانے کی بات ان کے لیے آخری سہارا چھیننے کے مترادف ہے۔ سرکاری ملازمین اپنی ملازمت کے دوران انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں جو حکومتی خزانے کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جب وہ عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں صحت اور مالی تحفظ ان کی بنیادی ضرورت ہے، ان پر مزید بوجھ ڈالا جائے؟ کاروباری طبقے کو تو سیلف اسسمنٹ سکیم کے تحت اخراجات منہا کرنے کی اجازت ہے لیکن ملازمین اور پنشنرز کے لیے ایسی کوئی رعایت نہیں۔ یہ طبقہ جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے، کم از کم ٹیکس چھوٹ کا مستحق ہے۔ قابل ٹیکس آمدنی کی حد بڑھانے سے بھی ان پر کچھ بوجھ کم ہو سکتا ہے مگر کیا حکومت اس طرف سوچے گی؟

اس بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف کا دباؤ واضح ہے۔ 14307 ارب روپے کے ریونیو ہدف پر پاکستان اور آئی ایم ایف متفق نہیں ہو سکے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ایف بی آر 13200 ارب روپے سے زیادہ نہیں اکٹھا کر سکتا، جس سے 300 ارب روپے کا فرق پیدا ہو گیا ہے۔ اس فرق کو پورا کرنے کے لیے 700 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز عائد کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرحوں میں کمی کی حکومتی تجویز پر آئی ایم ایف نے اعتراض اٹھایا ہے جبکہ تمباکو اور مشروبات کے شعبوں پر نئے ٹیکسز لگانے کی تیاری ہے۔ خاص طور پر تمباکو کی اشیاء، بالخصوص سگریٹ پر بھاری ٹیکس لگانے کی تجویز ہے، جس سے سگریٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ یہ اقدام ایک طرف سے مثبت ہو سکتا ہے کیونکہ سگریٹ مہنگے ہونے سے لوگ خاص طور پر مزدور طبقہ جو سستے سگریٹ پیتا ہے، اسے کم خریدے گا۔ یہ طبقہ سب سے زیادہ تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کا شکار ہوتا ہے۔ سگریٹ کی قیمت بڑھنے سے ان کی قوت خرید متاثر ہوگی اور کم سگریٹ پینے سے وہ بیماریوں سے بچ سکتے ہیں، جس سے صحت پر اٹھنے والے اخراجات میں نمایاں کمی آئے گی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ تمباکو کے شعبے میں کم از کم قانونی قیمت (ایم ایل پی) بڑھانے کی تجویز کے باوجود 80 فیصد سے زائد سگریٹ برانڈز اس سے کم یا قدرے زیادہ قیمت پر فروخت ہو رہے ہیں۔ غیر عمل شدہ تمباکو پر ایڈوانس ٹیکس کی نگرانی سے ریونیو بڑھانے کی کوشش کی جائے گی، مگر یہ اقدامات صحت کے مسائل حل کرنے کے بجائے سگریٹ کی سستی دستیابی کو بڑھا سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال تمباکو سے متعلقہ بیماریوں سے ایک لاکھ سے زائد اموات ہوتی ہیں۔ کیا یہ وقت نہیں کہ صحت عامہ کو ترجیح دی جائے؟

توانائی کا شعبہ بھی عوام کے لیے کوئی خوشخبری نہیں لا رہا۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر 5 روپے فی لیٹر کاربن لیوی، بجلی کے بلوں میں 10 فیصد ڈیبٹ سروس سرچارج، اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک خبرکے مطابق حکومت اور آئی ایم ایف نے پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی مزید بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، جس میں 5 روپے فی لیٹر کاربن لیوی عائد کرنے اور آئندہ مالی سال میں فی لیٹر پیٹرولیم لیوی 100 روپے سے زائد کرنے کی تجویز شامل ہے۔ مزید برآں استعمال شدہ گاڑیوں کی ڈیوٹیز کی مجموعی شرح نئی گاڑیوں سے 40 فیصد زیادہ ہوگی، جو ہر سال 10 فیصد کم ہوگی اور 2030 تک مکمل خاتمہ متوقع ہے۔ آئی ایم ایف نے سابقہ فاٹا/پاٹا کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم کرنے اور کھاد پر جنرل سیلز ٹیکس کی عمومی شرح نافذ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
حکومت یہ فیصلے یکم جولائی 2025 سے نافذ ہوں گے۔ گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 1252 ارب روپے قرض لیا جائے گا، جو اگلے 6 سال میں بجلی صارفین سے وصول کیا جائے گا۔ بجلی اور گیس پر سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ بھی عوام کے لیے ایک اور مالیاتی بوجھ ہے۔ کیا متوسط طبقہ جو پہلے ہی بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے قرض لے رہا ہے، اس اضافی سرچارج کو برداشت کر پائے گا؟ گردشی قرضوں کو 2031 تک صفر پر لانے کا ہدف تو طے کر لیا گیا مگر اس کی قیمت عوام سے وصول کی جا رہی ہے۔

نان فائلرز کے خلاف سخت اقدامات بھی بجٹ کا حصہ ہیں۔ حکومت نان فائلرز کی کیٹیگری ختم کرنے اور ان کے لیے گاڑیوں، جائیداد کی خریداری اور مالی لین دین پر پابندی لگانے کی تیاری کر رہی ہے۔ تاجر دوست اسکیم اپنے اہداف پورے نہ کر سکی، لیکن غیر رجسٹرڈ دکانداروں پر ودہولڈنگ ٹیکس بڑھانے سے فائلرز کی تعداد میں 51 فیصد اضافہ ہوا۔ ٹیکس نظام کو موثر بنانے کے لیے تھرڈ پارٹی ڈیٹا کا تجزیہ اور کمپلائنس رسک منیجمنٹ سسٹم کو فعال کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدامات یقیناً ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھائیں گے مگر کیا یہ اس قیمت پر ہونا چاہیے کہ متوسط طبقے اور غریب عوام کی زندگی مزید مشکل ہو جائے؟

یہ بجٹ عوام کے لیے ایک اور امتحان ہے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ میں اضافی ٹیکسز، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ، اور پنشنرز پر انکم ٹیکس جیسے فیصلے متوسط طبقے کی کمر توڑ دیں گے۔ دل رنجیدہ ہوتا ہے یہ سوچ کر کہ ایک دیہاڑی دار مزدور جو بمشکل 700 روپے روزانہ کماتا ہے، جس نے اسی 700 روپے میں گھر چلانا ہوتا ہے، کیا حکومت نے یہ سوچا ہے کہ اس مزدور کا کیا ہوگا، اس کے بچے، بوڑھے والدین اور دیگر گھر والے کیسے زندہ رہ پائیں گے؟یا جن بزرگ شہریوں نے اپنی زندگی ملک کی خدمت میں گزاری، انہیں اب اپنی پنشن پر ٹیکس دینا پڑے گا۔ کیا یہ ان کی خدمات کا صلہ ہے؟ تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی شرحوں میں کمی، پنشنرز کے لیے ٹیکس چھوٹ اور قابل ٹیکس آمدنی کی حد بڑھانے جیسے اقدامات اس وقت کی ضرورت ہیں۔

توانائی کے شعبے میں عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے گردشی قرضوں کو کم کرنے کے لیے موثر اصلاحات کی جانی چاہئیں۔ تمباکو پر بھاری ٹیکسز سے صحت عامہ کے تحفظ کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے، خاص طور پر مزدور طبقے کو بیماریوں سے بچانے کے لیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی فلاح کو ترجیح دے۔ معاشی استحکام ضروری ہے مگر اس کی قیمت عوام کی زندگیوں کو مزید کٹھن بنا کر نہیں چکانا چاہیے۔ یہ بجٹ اگر صرف ریونیو کے نام پر عوام پر بوجھ ڈالتا رہا تو یہ محض ایک معاشی قتل ہی کہلائے گا۔ یہی وقت ہے کہ حکومت ایسی پالیسیاں اپنائے جن سے نہ صرف قومی خزانہ بھرجائے بلکہ عوام کے چہروں پر بھی مسکراہٹیں لانے کیلئے بھی اقدامات ضرورکئے جائیں ۔

Shares: