آٹھ محرم۔ امام کا آخری خطاب: حسینؑ نے پکارا، مگر ضمیر سوئے رہے
تحریر:سید ریاض حسین جاذب
آٹھ محرم کی شام… کربلا کی پیاسی سرزمین پر سناٹا گہرے سائے کی مانند چھایا ہوا تھا۔ خیموں میں سسکیاں تھیں، خشک مشکیزے تھے، اور ہر چہرے پر اضطراب کی پرچھائیاں۔ چھوٹے بچے پانی کے ایک قطرے کو ترس رہے تھے، ماؤں کی گودیں اپنی تڑپتی اولاد کو خاموشی سے سینے سے لگا رہی تھیں، اور وقت جیسے تھم سا گیا تھا۔ آسمان پر سورج بھی جیسے شرمندگی سے جھک گیا ہو، اور زمین خاموشی سے اس اندوہناک منظر کی گواہی دے رہی تھی۔
انہی گھڑیوں میں امام حسینؑ خیمے سے باہر تشریف لائے۔ یزیدی لشکر نے ہر طرف سے نرغہ تنگ کر رکھا تھا، مگر حسینؑ کے قدموں میں لرزش نہ تھی۔ ان کی نگاہوں میں جلال، لہجے میں وقار اور دل میں وہ درد تھا جو صرف نواسۂ رسولؐ کے سینے میں انگاروں کی طرح دہک سکتا ہے۔
امامؑ نے دشمنوں سے مخاطب ہوکر وہ کلمات کہے جو رہتی دنیا تک مظلومیت کی بلند ترین صدا بن کر گونجتے رہیں گے:
"کیا تم نہیں جانتے کہ میں محمدؐ کا نواسہ ہوں؟ کیا تم بھول گئے کہ میری ماں فاطمہؑ وہی ہیں جنہیں تم خاتونِ جنت کہتے ہو؟ کیا تم ان احادیث کو جھٹلا سکتے ہو جو رسولؐ خدا نے میرے اور میرے بھائی حسنؑ کے بارے میں فرمائی تھیں؟ اگر تمہیں شک ہے تو جابر بن عبداللہ، زید بن ارقم اور انس بن مالک جیسے جلیل القدر صحابہ سے پوچھ لو، جنہوں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا۔”
یہ خطاب صرف ایک تاریخی بیان نہ تھا، یہ وہ احتجاج تھا جو ایک مظلوم امامؑ اپنی امت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کر رہا تھا… مگر ہر طرف سنگ دلی کے اندھیرے چھا چکے تھے۔
اسی دن پانی کا محاصرہ مزید سخت کر دیا گیا۔ نہر فرات بہہ رہی تھی، مگر اہلِ بیتؑ کے لیے اس کے پانی کا ایک قطرہ بھی حرام کر دیا گیا۔ حضرت عباسؑ کی غیرت سلگ رہی تھی، سکینہؑ کے لب خشک تھے، اور امامؑ کی پلکوں پر امت کی بےحسی کا درد جھلک رہا تھا۔
امام حسینؑ نے عمر بن سعد سے مذاکرات کیے۔ تین تجاویز پیش کیں:
1. مجھے واپس مدینہ جانے دیا جائے
2. کسی سرحدی مقام پر چلے جانے کی اجازت دی جائے
3. یا پھر مجھے یزید کے سامنے پیش ہونے دیا جائے
مگر یزیدی لشکر نے ہر دروازہ بند کر دیا۔
رات ڈھلنے لگی۔ خیموں میں موت کی چاپ سنائی دینے لگی۔ اصحابِ حسینؑ اپنی تلواریں درست کرنے لگے، اور امامؑ اپنے رب کے حضور سر بسجود ہو گئے:
"اے میرے رب! تُو جانتا ہے کہ ہم نے تیرے دین کی خاطر سب کچھ قربان کر دیا… بچوں کی پیاس، بہنوں کے آنسو، اصحاب کی جانیں… سب تیری رضا کے لیے نچھاور کر دیے۔”
آٹھ محرم وہ دن ہے جب دنیا نے ایک سچ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا … جب سارا عالم خاموش ہو جائے، تو ایک حسینؑ کھڑا ہو کر تاریخ کو جگاتا ہے۔
یہ دن ہمیں سکھاتا ہے کہ صبر صرف خاموشی کا نام نہیں، بلکہ وہ عزم ہے جو پانی کی پیاس میں بھی سر نہیں جھکاتا۔ امام حسینؑ کا خطاب فقط احتجاج نہیں تھا، بلکہ وہ درد بھری آواز تھی جو ایک بیٹے کو اپنے باپ کی لاش اٹھاتے وقت محسوس ہوتی ہے۔ یہ وہ جلال تھا جو صرف حق پر قائم ولی کو نصیب ہوتا ہے۔
کربلا کی پیاسی شام میں امام حسینؑ نے صرف حجت تمام نہیں کی، بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ سبق دیا کہ:
> ظلم کے سائے چاہے جتنے گہرے ہوں، ایک نواسۂ رسولؐ کا سچ ان سب کو چیر کر روشنی بن جاتا ہے۔









