زہریلا دودھ. خاموش قاتل، بے حس ادارے
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
بحیثیت قوم اگر ہم دنیا کی دیگر اقوام سے اپنا موازنہ کریں تو حالیہ دنوں پاکپتن، سوات اور کراچی لیاری میں پیش آنے والے افسوسناک واقعات ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ ان سانحات کو دیکھ کر ہمیں شدت سے احساس ہوتا ہے کہ گزشتہ 78 برسوں سے ہماری ترقی، ترجیحات اور ریاستی نظام کس قدر بگاڑ کا شکار رہا ہے۔ ہم ترقی کے بجائے مسلسل تنزلی کی طرف گامزن ہیں اور اس زوال کی سب سے بڑی وجہ وہ ریاستی ادارے ہیں جنہوں نے فیلڈ ورک ترک کر کے مافیا کو طاقت بخشی، جیسا کہ پاکپتن کی حالیہ مثال سے ظاہر ہوتا ہے۔

ان ہی تلخ حقائق کی روشنی میں آج ہمیں جس خطرناک اور نظر انداز کیے گئے مسئلے پر بات کرنی ہے وہ ہے دودھ مافیا۔ ایسا مافیا جو خاموشی سے نہ صرف ہماری بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کی صحت کو تباہ کر رہا ہے۔ اس گھناؤنے کھیل میں شریک وہ سرکاری اہلکار بھی برابر کے مجرم ہیں جو عوامی تحفظ کے بجائے مفادات کے اسیر بن چکے ہیں۔ جب پنجاب فوڈ اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تو عوام کو امید ہوئی کہ اب ملاوٹ، آلودگی اور مضر صحت اشیاء کے خلاف سنجیدہ اقدامات کیے جائیں گے، مگر جلد ہی یہ امید دم توڑ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ فوڈ اتھارٹی بیشتر مقامات پر صرف فوٹو اتھارٹی بن چکی ہے۔ چند مخصوص فوٹو سیشن، سوشل میڈیا پوسٹس، اور پریس ریلیز اس کی کارکردگی سمجھی جاتی ہے جبکہ زمینی سطح پر صورتحال جوں کی توں ہے۔ نہ چیکنگ ہو رہی ہے، نہ چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات میں اس کا کوئی عملی اثر دیکھنے میں آتا ہے۔

مارکیٹ میں بکنے والا زیادہ تر کھلا دودھ اب مکمل غذا کے بجائے ایک زہریلا مشروب بن چکا ہے۔ اس میں فارملین، سرف، یوریا، شیمپو، بال سافٹنر اور نہری پانی جیسے مہلک اجزاء شامل کیے جاتے ہیں۔ وہ دودھ جسے بچوں کی نشوونما، نوجوانوں کی توانائی، عورتوں کی صحت اور بزرگوں کی ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے، بدقسمتی سے آج سفید زہر کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ پنجاب بھر میں بالخصوص دیہی اور نیم شہری علاقوں میں دودھ فروش مافیا بے خوف ہو کر کیمیکل ملا دودھ بیچ رہا ہے۔ ان کے خلاف کارروائیاں یا تو صرف کیمروں کی حد تک محدود ہوتی ہیں یا پھر کسی رسمی کارروائی کے بعد ختم ہو جاتی ہیں۔ فوڈ اتھارٹی، محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ صرف اپنی فائلیں اور تصاویر سنوارنے میں مصروف ہیں جبکہ اصل مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔

اس زہریلے دودھ کے نتیجے میں بچوں، عورتوں اور بزرگوں میں متعدد خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں، جن میں گیس، السر، بدہضمی، ہیپاٹائٹس اے، بی اور جگر کی سوزش، گردے کے امراض، پتھری، جلدی الرجی، خارش، چہرے پر دانے، ہڈیوں کی کمزوری، بچوں میں نشوونما کی رکاوٹ، خواتین میں ہارمونی تبدیلیاں، نظر کی کمزوری اور اعصابی مسائل شامل ہیں۔ یہ تو صرف چند بیماریاں ہیں، حقیقتاً اسپتالوں کی او پی ڈیز میں مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد خود اس زہریلے کاروبار کا زندہ ثبوت ہے۔

اس پورے نظام میں شامل کالی بھیڑیں سرکاری دفاتر میں بیٹھی رشوت کے عوض آنکھیں بند کیے بیٹھی ہیں۔ دودھ فروش مافیا کو ان کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، جبکہ فوڈ اتھارٹی، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت کوئی راز نہیں رہی۔ دیہی علاقوں میں نہ لیبارٹری کی سہولت ہے نہ چیکنگ کا کوئی مؤثر نظام۔ گاؤں دیہات کے کروڑوں افراد روزانہ زہر پینے پر مجبور ہیں اور ریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

یہ صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ اب اس میں وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کو ذاتی دلچسپی لینا ہوگی۔ آپ ایک بااختیار، باشعور اور عوام دوست رہنما ہیں جنہوں نے کئی شعبوں میں اصلاحات کے ذریعے قابلِ تحسین مثالیں قائم کی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کو بھی براہ راست آپ کی نگرانی میں لایا جائے تاکہ اس خاموش قاتل کا راستہ روکا جا سکے، اور عوام کو سفید زہر سے نجات ملے۔ اگر فوری، سنجیدہ اور غیر سیاسی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ آنے والے برسوں میں ایک سنگین قومی المیہ بن جائے گا۔

Shares: