روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نےکہاہےکہ یوکرینی تنازع کو پائیدار اور طویل مدتی بنانے کے لیے بحران کی جڑوں کو حل کرنا ہوگا-

چین کے شہر تیانجن میں پیر کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیوٹن نے نیٹو پر خطے کو غیر مستحکم کرنے اور یوکرین کی جنگ کا الزام مغرب پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماسکو کا حملہ برسوں کی مغربی اشتعال انگیزی کا نتیجہ ہےیہ دعویٰ مسترد کر دیا کہ جنگ روس نے شروع کی تھی،انہوں نے کہا کہ یہ بحران روس کے یوکرین پر حملے سے شروع نہیں ہوا، بلکہ یوکرین میں ہونے والی بغاوت کا نتیجہ ہے، جسے مغرب نے سہارا دیا اور بھڑکایا۔

پیوٹن کا اشارہ 14-2013 کی اُس عوامی تحریک کی طرف تھا، جس میں اُس وقت کے یوکرینی صدر وکٹر یانوکووچ کو معزول کر دیا گیا تھا، اس انقلاب کے جواب میں روس نے کریمیا کو ضم کر لیا اور مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں ایک ایسی جنگ چھڑ گئی جس نے ہزاروں جانیں لے لیں اور ملک کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا تھا2022 میں روس کے یوکرین پر مکمل حملے نے لڑائی کو مزید بڑھا دیا، جس کے بعد امریکا اور یورپی یونین نے ماسکو پر سخت پابندیاں عائد کیں اور روس کی مغرب سے دوری میں اضافہ ہوا، اگرچہ باقی دنیا کے ساتھ اس کا تعلق متاثر نہیں ہوا۔

پاکستان ہمیشہ کثیر الجہتی، مذاکرات اور سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے،وزیراعظم

پیوٹن نے کہا کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی مغربی کوششیں اس جنگ کی ایک بڑی وجہ ہیں، اور یہ دہرایا کہ کسی بھی امن معاہدے سے پہلے روس کے سیکیورٹی خدشات کو حل کرنا ضروری ہے، یوکرینی تنازع کو پائیدار اور طویل مدتی بنانے کے لیے بحران کی جڑوں کو حل کرنا ہوگا۔

روسی صدر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اگست میں ہونے والی بات چیت کو ’امن کے راستے کی ابتدا‘ قرار دیا، انہوں نے بیجنگ اور نئی دہلی کی سفارتی کوششوں کی تعریف کی اور کہا کہ ان کی تجاویز یوکرینی بحران کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں،یوکرینی تنازع کو پائیدار اور طویل المدتی بنانے کے لیے بحران کی جڑوں کو حل کرنا ضروری ہے، اس تنازع کا ایک حصہ مغرب کی جانب سے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی مسلسل کوششوں میں پوشیدہ ہے۔

چلاس میں پاک فوج کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ،آئی ایس پی آر کی تصدیق

پیوٹن نے اتوار کو چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی تھی، تاکہ یوکرین پر تبادلہ خیال کیا جا سکے اور کہا کہ وہ اجلاس کے موقع پر دیگر رہنماؤں کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتوں میں بات چیت کو مزید آگے بڑھائیں گے،ماسکو اور بیجنگ نے ایس سی او کو مغربی اتحادوں کے مقابلے کے طور پر پیش کیا ہے، جب کہ پیوٹن نے کہا کہ دنیا کو ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو فرسودہ یورپ اور اٹلانٹک ماڈلز کی جگہ لے سکے۔

Shares: