مقبوضہ کشمیر میں جہاں کرفیو کے باون دنوں سے وادی کے لوگوں کی زندگی اجیرن ہوئی ہے، غذائی اشیاء کی شدید قلت ہے، شیر خوار بچوں کے لیے دودھ بھی میسر نہیں ہے، مواصلات کے سبھی ذرائع پر سخت قسم کی پابندیاں عائد ہیں جس کی وجہ سے بھارتی مسلح افواج کی بربریت اور کرفیو میں جاں بلب کشمیریوں کے نقصانات کا تخمینہ لگانا ناممکن سا ہوا پڑا ہے وہیں ایک بڑا مسئلہ اور نقصان ان کشمیری طلباء کا ہے جو وادی سے باہر مختلف ممالک میں زیر تعلیم ہیں.

مزید پڑھیں کیا سوشل میڈیا پوسٹس اور ٹویٹر ٹرینڈز سے کشمیر آزاد ہوجائے گا؟؟؟ تحریر: محمد عبداللہ

پچھلے تقریباً دو ماہ سے ان میں سے کسی کا بھی اپنے گھر والوں سے کسی قسم کا رابطہ نہیں ہے. ان کے پاس بجٹ پہلے ہی محدود ہوتا ہے وہ ختم ہوچکا ہے اور وہ فاقوں پر مجبور ہیں لیکن اس سے بڑا مسئلہ شدید قسم کی ذہنی اذیت ہے کہ کوئی اندازہ اور علم نہیں ہے کہ ان کے گھر والے کس کیفیت میں ہیں، زندہ بھی ہیں یا نہیں اور حالیہ آنے والے زلزلہ کے بعد تو دکھ کی یہ کیفیت مزید بڑھ گئی کہ اپنے والدین و بہن بھائیوں کی خیریت دریافت کرنا چاہتے ہیں مگر مواصلات، میڈیا، سوشل میڈیا غرض کے سبھی ذرائع کے بلیک آؤٹ کی وجہ سے وہ اس عمل سے قاصر ہیں.

مزید پڑھیں مسئلہ کشمیر فقط زمین کے ٹکڑے کی لڑائی یا کچھ اور؟ ؟؟ محمد عبداللہ

کشمیری خواتین کی سب سے بڑی جماعت دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرانی کے بیٹے احمد بن قاسم کا کہنا تھا "زلزلے کے بعد آپ اپنے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے بے ساختہ فون اٹھاتے ہیں اور نمبر ڈائل کرتے ہیں مگر آپ بھول جاتے ہیں کہ کشمیر میں کرفیو ہے اور ہر قسم کی مواصلات پر پابندی ہے” اسی طرح آسیہ اندرابی ہی کے بھانجے اور کشمیر یوتھ الائنس کے صدر ڈاکٹر مجاہد گیلانی کا کہنا تھا "کہ پہلے تو ہماری خالہ کی خیریت دریافت ہوجاتی تھی مگر اب کرفیو اور مواصلات پر پابندی کی بدولت ہم کچھ بھی جاننے سے قاصر ہیں”. پاکستان کی مختلف یونیورسٹیز میں پڑھنے والے بے شمار کشمیری طلباء نے اپنی یہی کیفیت بتائی کہ وہ اپنے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کو بے تاب ہیں مگر کوئی ذریعہ نہیں ہے. ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے گھر والوں نے اخراجات کے لیے کرفیو سے قبل جو رقم بھجوائی تھی وہ ختم ہوچکی ہے اور اب ہم فاقوں پر مجبور ہیں. ہزاروں کشمیری طلباء دنیا کے مختلف ممالک میں زیر تعلیم ہیں اور ہزاروں ایسے ہیں جو بسلسلہ روزگار بیرون ملک مقیم ہیں ان سب کی کیفیت یہی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں سے رابطہ نہ ہونے کے باعث شدید قسم کی ذہنی اور قلبی اذیت کا شکار ہیں. کچھ دن قبل پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے سعودیہ میں مقیم ایک کشمیری نوجوان نے فریاد کی تھی کہ میرا اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور میں ان کے بارے میں شدید پریشانی کا شکار ہوں. یہ ایک مثال تھی مگر کتنے ہی ہزاروں کشمیری طلباء اور مزدور جو بیرون ملک مقیم ہیں ایسے بھی ہیں جو اس ڈر سے میڈیا یا سوشل میڈیا پر آکر اپنی پریشانی اور کیفیت بیان نہیں کررہے کہ کہیں ان کے اس عمل کی وجہ سے ان کے گھر والوں پر کوئی آفت نہ آن پڑے. بھارت کی جانب سے باون دنوں کا مسلسل کرفیو اور ذرائع مواصلات پر پابندی وہ شدید قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کا شکار بےچارے کشمیری ہو رہے ہیں ایسے میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور بھارت پر زور دینا چاہیے کہ وہ کشمیر میں کرفیو کو ختم کرے اور ذرائع مواصلات پر عائد پابندیاں ہٹائے تاکہ بیرون ملک مقیم کشمیری اپنے پیاروں سے رابطہ کرکے ان کی خیریت دریافت کرسکیں.

مصنف کے بارے مزید جانیے

Muhammad Abdullah
Muhammad Abdullah
Shares: