شہبا زاکمل جندران۔

باغی انویسٹی گیشن سیل۔۔۔۔

مولانا فضل الرحمن کی اہلیت داو پرلگنے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف)کے صدر مولانا فضل الرحمن ایک طرف حکومت کے خلاف مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔تو دوسری طرف ان کے اثاثہ جات کے گوشواروں میں حقائق سے متصادم چیزیں سامنے آگئی ہیں۔جو انہیں آئندہ کے انتخابات میں نااہل کرواسکتی ہیں۔اور خدشہ ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62کی کلاز ون کی ذیلی کلاز fکی زد میں آسکتے ہیں۔

 

مولانا فضل الرحمن 2013سے 2018کے دوران قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 24سے رکن پارلیمنٹ رہے۔انہوں نے 2013سے 2017تک اپنے اثاثہ جات میں غیر منقولہ جائیدادوں کی تفصیل اور مالیت ایک ہی تحریر کی۔7جون 2018کو عام انتخابات میں الیکشن لڑنے کے لیے جمع کروائے جانے والے کاغذات نامزدگی میں مولانا فضل الرحمن نے 15لاکھ روپے کا موروثی مکان، 25لاکھ روپے کا ڈی آئی خان میں مکان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی 5کنال کا پلاٹ 7لاکھ روپے مالیت کا بیان کیا ہے۔کاغذات نامزدگی میں ان جائیدادوں کے سامنے مالیت موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق بیان کی گئی ہے۔حالانکہ ڈیر ہ اسماعیل خان میں ایسی کون سی جگہ ہے جہاں 7لاکھ روپے میں 5کنال اراضی موجودہ مارکیٹ ریٹ پر دستیاب ہو۔

لیکن یہی نہیں مولانا فضل الرحمن 2013،سال 2014،سال 2015اور2016میں الیکشن کمیشن کو جمع کروائے جانے والے اثاثہ جات کے سالانہ گوشواروں متذکرہ بالا یہی تینوں جائیدادیں بیان کرتے رہے اور ہر سال ان کی یہی قیمت بیان کی گئی اور ہرسال ان جائیدادوں کی مالیت کے سامنے موجودہ مارکیٹ ریٹ کا ذکر بھی کیا گیا۔ڈی آئی خان میں ایسی کون سی جائیدادیں،مکان اور پلاٹ ہیں۔جن کی مالیت پانچ برسوں میں ایک روپیہ بھی نہ بڑھ سکی۔اسی طرح مولانافضل الرحمن 2013سے 2017تک پانچ برسوں کے دوران اپنی زوجہ کے زیر استعمال طلائی زیورات کی مالیت 9لاکھ 50ہزار روپے بیان کرتے رہے۔حالانکہ 2013کی نسبت 2017میں سونے کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ چکی تھیں۔ نیز انہوں نے کبھی زیورات کا وزن بتانا پسند نہ کیا۔


2016میں مولانا فضل الرحمن نے اکاونٹ نمبر 139-5 الائیڈ بینک پارلیمنٹ ہاو س کی برانچ میں 7لاکھ32ہزار 470روپے کی رقم بیان کی لیکن کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے اس اکاونٹ میں مجموعی رقم 20لاکھ50ہزار 312روپے بیان کی۔یہ رقم کہاں سے آئی اس کا سورس بیان نہ کیا حالانکہ انہوں نے اپنی کوئی جائیداد یا اثاثہ فروخت بھی نہیں کیا تھا۔پھر بھی یہ رقم 7لاکھ روپے سے بڑھ کر 20لاکھ روپے تک کیسے جاپہنچی۔مولانا کے اسی اکاونٹ میں 2013میں 16لاکھ روپے، 2014میں 10لاکھ روپے اور 2015میں 11لاکھ روپے کی رقم بیان کی گئی۔جوکہ 2016میں کم ہوکر 7لاکھ رہ گئی لیکن 2017میں ایک دم 20لاکھ ہوگئی۔

اسی طرح مولانا فضل الرحمن نے سال 2015کے دوران 10لاکھ 74ہزار روپے کی انکم پر 49ہزار 902روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ لیکن انکم ٹیکس کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے 49ہزار 908روپے ٹیکس ادا کیا۔سال 2016میں 11لاکھ 6ہزار روپے کی انکم پر انہوں نے 50ہزار 181روپے انکم ٹیکس ادا کیا جبکہ ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے 64ہزار 92روپے ٹیکس ادا کیا۔اسی طرح سال 2017میں مولانا کے مطابق انہوں نے 17لاکھ 21ہزار روپے کی سیلری آمدن پر ایک لاکھ 25ہزار 225روپے انکم ٹیکس ادا کیا جبکہ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2017میں ایک لاکھ38ہزار 274روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔

مولانا فضل الرحمن 2018کے عام انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے ریٹرننگ افسر کے روبرو جمع کروائے جانے والے کاغذات نامزدگی کے ہمراہ لف بیان حلفی میں تحریر کرتے ہیں کہ سال 2016میں ان کے جملہ اثاثہ جات کی مالیت 64لاکھ 22ہزار 123روپے تھی جو سال 2017میں بڑھ کر 77لاکھ 3ہزار 547روپے ہوگئی اور ان کے اثاثہ جات میں 12لاکھ 81ہزار 424روپے کا اضافہ ہوا۔حالانکہ یہ اضافہ کب اور کیسے ہوا بیان نہیں کیا گیا۔

خدشہ ہے کہ مولانا آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کی زد میں آسکتے ہیں۔اور اگران کے خلاف کسی آئینی عدالت سے رجوع کیا تو متذکرہ بالا تضادات آئندہ انتخابات میں ان کی اہلیت کے لیے مشکلا ت پیدا کرسکتے ہیں۔

Shares: