موسم کافی سرد تھا۔ : بقلم جواد سعید
سردی سے تمام جاندار اپنے بلوں میں دبک چکے تھے۔ہر طرف ہو کا عالم تھا۔سناٹا ہلکی ہلکی آواز کو اونچا سنا رہا تھا۔سڑک پر ٹریفک ندارد۔
لیکن پھر بھی وہ ان سب سے بے پرواہ آستین چڑھائے سڑک پر خورد بین جیسی نطریں مرکوز کیے آوارہ گردی کررہا تھا۔
مشغلے کے طور پر بکھرے پتھر خالی بوتلوں کو وہ اپنی ٹھوکروں سے ہٹا رہا تھا۔
اسکی حرکات اسکے مضطربانہ چال کو واضح کر رہی تھیں۔دیکھنے پر محسوس ہوتا جیسے سوچ وبچار کے سمندر میں غرق ہے۔
حیرانگی تب ہوتی جب وہ خیالاتی سمندر سے منہ نکال کر اپنی دائیں بائیں طرف سلسلہ مکانات پر نظریں گھماتا۔
پھانسی پر لٹکے بلبوں کی بجھتی بجھتی لائیٹیں انکے مکینوں پر دلالت کررہی تھیں۔
اور میں تھا کہ مجھے یہ معمہ سمجھنے کا اشتیاق بڑھ رہا تھا۔
اب وہ نظروں سے اوجھل ہونے لگا۔میں نے بھی پیچھا کرنے کی ٹھان لی۔
انگلش فلموں کی طرح خود کو پروفیشنل جاسوس سمجھتے ہوئے مبالغہ آمیز احتیاط سے اسے فالو کرنے لگا۔
جتنا میں خود کو چھپا رہا تھا اتنا ہی انجانا سا ڈر ذہن میں سما رہا تھا۔چلتے چلتے اگر کسی روشنی کی زد میں آ جاتا تو اپنا ہیولہ ہی جان نکال دیتا ۔
اب وہ آخری مکانوں سے گزر رہا تھا۔اسکی چال قدرے سست ہو چکی تھی اور وہ مسلسل بے چین نظر آ رہا تھا۔اسکی بے چینی اسکی حرکتوں سے عیاں تھی کبھی سڑک پر نظریں گاڑ لیتا کبھی مکانوں کی روشنیوں کی سمت دیکھتا اور کبھی آگے پیچھ دیکھتا کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔
یہ کیا۔۔۔
وہ سڑک پر جھک چکا تھا اور اپنے ہاتھوں سے کوئی چیز ٹٹول رہا تھا۔
میں مسلسل حیرانگی کو موجوں میں غرق تھا۔
اب وہ ٹانگوں کے وزن پر بیٹھا نظر آیا۔اور اپنے ہاتھوں ٹانگوں کے بل چوپائے مانند آگے سرکتا دکھائ دیا۔اور اچانک اسنے کسی چیز کو چھوا ہی تھا کہ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا جیسے کسی معصوم کے بیٹھنے سے پہلے اسکی سیٹ پر نوک دار چیز رکھ دی جائے۔جیسے وہ اچھلتا بالکل اسی طرح۔لیکن وہ تو تکلیف کی شدت سے اٹھتا ہے اور یہ صاحب خوشی سے جھوم رہے تھے۔
اسی دوران پون گھنٹہ گزر چکا تھا۔
تھک ہار کر فلمی دنیا سے باہر آیا اور نارمل ہو کر تیزی سے اس کے قریب جانے لگا۔
مجھے اپنے قریب پا کر وہ بوکھلا سا ہو گیا۔
وہ قدرے سانولا ہٹا کٹا نوجوان تھا۔
علیک سلیک کے بعد میں نے اسے کہا بھائ گھنٹے بھر سے آپ کو دیکھ رہا کیا ماجرا ہے۔کس پریشانی میں مبتلاء ہیں اور اس خوشی کی وجہ کیا ہے۔؟؟؟
وہ یوں گویا ہوا
میری آتے ہوئے موٹر سائیکل کی چابی گر گئ تھی۔
اس سے تھوڑا آگے میں نے چابی موٹر سائیکل کو لگی دیکھی تھی۔
اسلیے میں اسے ڈھونڈ رہا تھا۔😲۔
گھنٹہ خوار ہونے کے بعد اب میں واپسی نکل پڑا۔
مجھے اپنے حساس اور ویلے ہونے کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔
اور سوچ رہا تھا بیوی کا ڈنڈا کتنی عظیم نعمت ہے بندے کو ٹائم سے گھر تو پہنچا دیتا۔ چاہے راستے میں لاکھوں لڑائیاں حادثات نظر انداز کر کے ہی کیوں نہ پہنچنا پڑے۔
لیکن کیونکہ انگور کھٹے ہیں۔اسلیے کنوارہ پن عظیم نعمت ہے۔