ختم نبوت کے داعیٰ سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کی زندگی پرمختصرنظرایک ہدیہ عقیدت ہے اس شخص کے لیے جس نے حرمت رسول کی خاطراس اسمبلی سے استعفیٰ دینا غیرت ایمانی سمجھا جس کی خاطربڑے بڑے اپنا ایمان بھی گنوابیٹھتے ہیں ،
سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی 76 برس کی عمر میں انتقال کرگئے، وہ گزشتہ تین روز سے وینٹی لیٹر پر موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے۔
واضح رہے کہ ظفر اللہ جمالی پاکستان کے 15ویں وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ وہ یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کے گاؤں روجھان جمالی میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم روجھان جمالی میں ہی حاصل کی۔ بعد ازاں سینٹ لارنس کالج گھوڑا گلی مری، ایچیسن کالج لاہور اور 1965ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
ظفر اللہ جمالی صوبہ بلوچستان کی طرف سے اب تک پاکستان کے واحد وزیر اعظم تھے۔ انھیں انگریزی، اردو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو زبان پر عبور حاصل تھا۔
میر ظفر اللہ جمالی کی پہچان ایک سنجیدہ اور منجھے ہوئے سیاست دان کی رہی۔ وہ روایات کے پابند تھے جن میں دوستی اور تعلقات نبھانا اور دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا شامل ہے۔
1970ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار کھڑے ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1977ء میں بلا مقابلہ صوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر خوراک اور اطلاعات مقرر کیے گئے۔ 1982ء میں وزیر مملکت خوراک و زراعت بنے۔
1985ء کے انتخابات میں نصیرآباد سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔ 1986ء میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ پانی اور بجلی کے وزیر رہے۔
29 مئی 1988ء کو جب صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا تو انہیں وزیر ریلوے لگادیا۔ 1986ء کے انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے۔
قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے اور صوبائی اسمبلی کے ارکان بنے۔ 1988ء میں وہ بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد انہوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب تو برقرار رکھا لیکن اسمبلی توڑ دی جسے بعد میں عدالت کے حکم سے بحال کیا گیا۔
اس کے بعد نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے۔ 1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ 1993ء میں کامیاب ہو گئے۔ 9 نومبر 1996ء تا 22 فروری 1997ء دوبارہ بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ رہے۔ 1997ء میں سینٹ کے ارکان منتخب کیے گئے ۔
1999ء نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد جب مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تو جمالی مسلم لیگ (ق) لیگ کے جنرل سیکریٹری بنے۔ یہ جماعت نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹانے والے صدر جنرل پرویز مشرف کی زبردست حمایت کر رہی تھی۔ مخالف دھڑے میں ہونے اور وزیر اعظم کی نامزدگی کے امیدوار ہونے کے باوجود وہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو وطن واپس آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے خواہش مند تھے ۔
انتخابات 2002اکتوبر کے نتیجے میں ان کو پارلیمنٹ نے 21 نومبر 2002 میں وزیر اعظم منتخب کیا۔ وزیر اعظم کا انتخاب کئی سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کے بعد عمل میں آیا۔ یہ مرحلہ اس وقت روبہ عمل ہوا جب پیپلز پارٹی کا ایک دھڑا الگ ہو کر مسلم لیگ (ق) کی حمایت پر آمادہ ہوا۔
جمالی دور میں پرویز مشرف کے حمایتوں اور مخالفین کے درمیان جاری رہنے و الی رسہ کشی ایک سال کے بعد دسمبر 2003ء میں متحدہ مجلس عمل کی مدد سے ستارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد ختم ہوئی۔ متحدہ مجلس عمل اور پرویز مشرف کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ ستارہویں ترمیم منظور کرانے کے بعد پرویز مشرف 31 دسمبر 2004ء تک وردی اتارلیں گے۔ لیکن پرویز مشرف نے یہ وعدہ وفا نہ کیا۔
اپنے وزارت عظمیٰ میں ظفر اللہ جمالی نے کئی وسط ایشیائی، خلیجی ممالک سمیت امریکا کا بھی دورہ کیا۔ بش سینئر سے 90ء کی دہائی میں تعلق قائم تھا۔ پرانے تعلق کو استعمال کرتے ہوئے دورہ امریکا کے دوران صدر بش سے تعلق استوار کیا۔
جمالی اپنے دور اقتدار میں کوئی بڑا عوامی ریلیف دینے میں ناکام رہے تاہم ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ انہیں کے دور میں کوئی بڑا بحران نہیں رہا، متحدہ مجلس عمل سے مذاکرات کو چلائے رکھنا بھی ان کی بری کامیابی سمجھی گئی ۔
وزیراعظم ظفر اللہ خان جمالی کی کابینہ میں خورشید قصوری،فیصل صالح حیات، راؤ سکندر اقبال، شیخ رشید احمد، عبدالستار لالیکا، ہمایوں اختر، کنور خالد یونس، نواز شکور، غوث بخش مہر، لیاقت جتوئی، اولیس لغاری، سمیر املک اور سردار یار محمد رند شامل تھے۔
وزیر اعظم بننے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے لگے، انھوں نے دورانِ حکومت صدر کی پالیسیوں کی مکمل حمایت بھی کی۔ ظفر اللہ جمالی ہمیشہ ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کے لیے کوشاں رہے اور جمہوریت کی بحالی کی طرف روبہ عمل رہنے کا وعدہ کیا تاہم وہ اپنی یہ پوزیشن برقرار نہ رکھ سکے اور 26 جون 2004ء کو وزیر اعظم کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی نے قومی اسمبلی کی نشست سے اس لیے استعفیٰدے دیا تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے ختم نبوت پربہت ڈاکہ ڈالا تھا ، اس پرمیر ظفراللہ جمالی نے کہا تھا کہ وہ ایسی اسمبلی کا حصہ نہیںبن سکتے جواللہ کے رسول کی ختم نبوت اورحرمت کا دفاع نہ کرسکے، اس کے بعد انہوں استعفیٰ دے دیا تھا، وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے واحد سیاستدان ہیں جو وزارت عظمیٰ کے منصب پہ فائز ہوئے۔
ن لیگ کوچھوڑنے کے بعد انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیارکرلی تھی
ذرائع کے مطابق ظفر اللہ خان جمالی کو چند روز قبل طبیعت خراب ہونے پر اسلام آباد کے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اُن کی طبیعت سنبھل نہ سکی۔ ڈاکٹرز نے تین دن قبل ظفر اللہ خان جمالی کو وینٹی لیٹر پر منتقل کیا تھا۔
واضح رہے کہ 29 نومبر کو ہارٹ اٹیک کے بعد ظفر اللہ جمالی کو تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ تین روز قبل اُن کے انتقال کی افواہ پھیلی تھی جس پر صدر مملکت عارف علوی نے بذریعہ ٹویٹ تعزیت کی اور پھر معذرت بھی کی تھی۔