لاہور،باغی ٹی وی( خصوصی رپورٹ) صوبہ پنجاب کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ڈرگ سیل لائسنس کے اجراء اور طبی کاروبار کے ضوابط واضح ہونے کے باوجود ایک تشویشناک صورتحال سامنے آئی ہے۔ یہاں وسیع پیمانے پر غیر قانونی میڈیکل سٹورز اور ڈرگ سیلرز کا نیٹ ورک سرگرم ہے جو مبینہ طور پر کرائے کے ڈرگ سیل لائسنس کی آڑ میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف پنجاب ڈرگ رولز 2007 کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ صحت عامہ کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔
پنجاب ڈرگ رولز 2007 کے تحت کسی بھی میڈیکل سٹور یا فارمیسی کے قیام کے لیے باقاعدہ لائسنس کا حصول لازمی ہے۔ اس عمل میں ڈرگ انسپکٹر کی ابتدائی معائنہ رپورٹ اور ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر (ہیلتھ) یا سیکرٹری ڈسٹرکٹ کوالٹی کنٹرول بورڈ (DQCB) کی منظوری کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ لائسنس کی مختلف اقسام ہیں، جن میں فارم-5 (صرف او ٹی سی ادویات کے لیے میڈیکل سٹور) اور فارم-6 (تمام ادویات بشمول کنٹرولڈ ڈرگز کے لیے فارمیسی) شامل ہیں۔ فارم-6 کے لیے ایک رجسٹرڈ فارماسسٹ کی موجودگی قانوناً لازمی ہے۔
تاہم پنجاب کے تمام چھوٹے بڑے شہروں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس واضح قانونی فریم ورک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک منظم طریقے سے غیر قانونی کاروبار پروان چڑھ چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق "ففٹی ففٹی چیئرپرسن” کہلانے والے افراد مبینہ طور پر ڈرگ کنٹرولر اور سی ای او ہیلتھ پنجاب کے مختلف اضلاع کی جانب سے جاری کردہ لائسنس کی اسناد کرائے پر حاصل کرتے ہیں۔ یہ کرائے کے لائسنس جن کی قانونی حیثیت مشکوک ہے شہروں اور گردونواح میں غیر قانونی میڈیکل سٹورز کے کاروبار کی بنیاد بن رہے ہیں۔
اس غیر قانونی صورتحال کا ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان کرائے کے لائسنس والے میڈیکل سٹوروں کے مالکان جو درحقیقت اتائی ڈاکٹرز ہیں سرعام اپنی غیر قانونی پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ افراد ان پڑھ اور سادہ لوح دیہاتیوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ انہوں نے باقاعدہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی ہے۔ اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کے لیے یہ اتائی اپنے میڈیکل سٹوروں میں کرائے کے لائسنس کو فریم کر کے آویزاں کرتے ہیں اور سادہ شہریوں کو بتاتے ہیں کہ یہ لائسنس حکومت کی جانب سے جاری کردہ سند ہے۔
ذرائع نے مزید انکشاف کیا ہے کہ ان لائسنسوں کے ساتھ ایک پارٹنرشپ معاہدہ بھی نمایاں طور پر لگایا جاتا ہے جس پر کرایہ دار (اتائی ڈاکٹر) اور ڈگری ہولڈر (جس کی ڈگری کرائے پر حاصل کی گئی ہے) کی تصاویر موجود ہوتی ہیں۔ اس جعلی شراکت داری کی آڑ میں یہ اتائی سرعام انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں اور غیر قانونی طبی مشورے اور علاج فراہم کر رہے ہیں جس سے مریضوں کی صحت اور زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
تشویشناک امر یہ ہے کہ رپورٹس کے مطابق پنجاب کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں 70 فیصد سے زائد میڈیکل سٹورز اور فارمیسیاں نہ صرف بغیر کسی مستند لائسنس کے چلائی جا رہی ہیں بلکہ ان میں کوالیفائیڈ عملے کی بھی کمی ہے۔ پنجاب ڈرگ رولز 2007 کی اہم شرائط جن میں لائسنس یافتہ جگہ، مناسب اسٹوریج اور ایک رجسٹرڈ فارماسسٹ کی موجودگی شامل ہیں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
اس غیر قانونی دھندے میں مبینہ طور پر کمیشن ایجنٹوں کا ایک فعال کردار بھی بتایا جاتا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے ڈرگ انسپکٹر اور ڈرگ سیلز برانچ کا کلیریکل عملہ اس سنگین صورتحال سے مبینہ طور پر چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
قانون کے مطابق کسی بھی غیر مجاز شخص کو میڈیکل سٹور چلانے کی اجازت نہیں ہے اور جعلی، غیر رجسٹرڈ یا زائد المیعاد ادویات کی فروخت ایک قابل سزا جرم ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں لائسنس کی معطلی یا منسوخی، بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں بھی موجود ہیں۔ تاہم پنجاب کے مختلف شہروں میں ان قوانین کی کھلی خلاف ورزی جاری ہے جس سے شہریوں کی صحت اور جانوں کو خطرہ لاحق ہے۔
مزید انکشاف یہ ہوا ہے کہ میڈیکل سٹور یا فارمیسی کھولنے کے لیے فارمیسی کونسل سے رجسٹرڈ کیٹیگری بی یا سی فارماسسٹ کی سند لازمی ہے۔ اس سند کے حصول کے لیے فارغ التحصیل افراد اپنی ڈگریاں ملازمت تک سالانہ بنیادوں پر متعلقہ ادارے کو فراہم کرتے ہیں۔ لیکن پنجاب کے مختلف شہروں میں مبینہ طور پر یہ ڈگریاں بھی کرائے پر حاصل کی جا رہی ہیں جس سے غیر کوالیفائیڈ افراد طبی کاروبار چلا رہے ہیں۔
شہریوں نے اس سنگین صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی انتظامیہ سے فوری اور سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف غیر قانونی اور غیر معیاری ادویات کی فروخت کو روکنا اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا انتظامیہ کی اولین ذمہ داری ہے بلکہ ان اتائی ڈاکٹروں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے جو کرائے کے لائسنس کی آڑ میں عوام کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔ شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان تمام مبینہ سہولت کاروں کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں جو اس غیر قانونی دھندے کی سرپرستی کر رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ صوبائی انتظامیہ اس سنگین صورتحال کا کس طرح نوٹس لیتی ہے اور عوام کی صحت کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات اٹھاتی ہے۔ غیر قانونی طبی کاروبار کا یہ نیٹ ورک نہ صرف قانون کی حکمرانی کو چیلنج کر رہا ہے بلکہ شہریوں کے بنیادی حق یعنی صحت مند زندگی گزارنے کے حق کو بھی سلب کر رہا ہے۔








