مجھے شروع سے ناول پڑھنا بے حد پسند تھا کیونکہ میری دلچسپی محض قصہ کہانیوں تک محدود تھی لیکن پھر مجھے کسی نے مشورہ دیا کہ آپ کتابیں تو ویسے بھی پڑھتی ہیں لیکن آپ کی سوچ صرف فروئی قصہ کہانیوں تک ہی محدود ہے لہذا آپ سیاست کو پڑھیں اسکے جواب میں میں نے انہیں کہا "آپ مجھے کچھ ایسی کتابیں بھجوا سکتے جو کسی دلچسپ اور بہادر انسان کے بارے میں لکھی گئیں ہوں” پس انہوں نے مجھے ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں لکھی گئی متعدد کتابیں بھیج دیں، یقین مانیں یہ کتابیں اتنی دلچسپ تھی کہ ان کے سحر میں میں ڈوبتی چلی گئی اور یوں مجھے سیاست کے بارے میں مزید جاننے کی دلچسپی پیدا ہوگئی بہرحال آج میں قارئین کی نظر ذولفقارعلی بھٹو کا ایک دلچسپ واقعہ پیش کرنا چاہتی ہوں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی اور اس وقت کے ممبر قومی اسمبلی قیوم نظامی اپنی کتاب "جو دیکھا جو سنا” میں الطاف حسین قریشی کی زبانی غریبوں اور بے بس لوگوں سے بھٹو کی محبت کا ایک واقعہ جو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے بیان کرتے ہیں.
یہ تقریبا 1975 کے موسم سرما کی بات ہے، جب وفاقی حکومت کے ایک آفیسر الطاف حسین اس وقت کے صوبہ سرحد کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے دورہ پر گئے ہوئے تھے۔
جس بنگلے میں الطاف کو ٹھہرایا گیا تھا اس کے ساتھ والا بنگلہ کمشنر ہاؤس تھا، الطاف روزانہ صبح سویرے مختلف علاقوں کے دورے پر نکل جایا کرتے تھے اور شام کو واپس آجاتے لیکن ایک شام جب وہ رہایش گاہ پر واپس آیا اور رات کا کھانا کھا کر اپنے کمرے سے بنگلہ کے گیٹ تک چہل قدمی کر رہے تھے تو رات نو بجے کے قریب ہوٹر کی آواز سنی، چوکیدار سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وزیراعظم بھٹو دورے پر آج ہی آئے ہیں اور وہ کمشنر ہاؤس میں قیام پذیر ہیں لہذا اس وقت وہ کسی سرکاری عشائیہ سے واپس آ رہے ہیں۔
الطاف حسین کہتے ہیں کہ: میں گیٹ پر کھڑا ہوگیا اور چند لمحوں میں وزیراعظم کی گاڑی گیٹ کے قریب پہنچ گئی چونکہ گاڑی کو ساتھ والے گیٹ کے اندر جانا تھا اس لیے اس کی رفتار بھی بہت کم تھی لہذا گاڑی جب میرے قریب سے گزری تو میں نے ویسے ہی ہاتھ ہلا دیا حالانکہ یہ جانتے ہوئے کہ اتنا اندھیرا ہے بھلا اس میں وزیراعظم مجھ پر کہاں توجہ دیں گے لیکن مجھے حیرت تب ہوئی جب وہ گاڑی گیٹ پر ہی رک گئی اور ان کا ملٹری سیکرٹری گاڑی سے اتر کر میری طرف قدم اٹھانے لگا۔
الطاف حسین مزید کہتے ہیں کہ: میرے قریب ٹہرے جونیئر افسر یہ دیکھ کر خوف زدہ ہوگئے اور بھاگ کر اندر چلے گئے بہرحال ملٹری سیکرٹری میرے پاس آئے اور پوچھا "آپ الطاف قریشی ہیں؟” میرے اقرار پر کہنے لگا "آپ کو وزیراعظم صاحب بلا رہے ہیں ” لہذا میں ان کے ساتھ گاڑی کے پاس گیا تو ڈرائیور نے پچھلا دروازہ کھولا اور کہا "آو بیٹھو ” مجھے بھٹو صاحب کی آواز آئی لہذا میں سلام کرکے بیٹھ گیا۔
گاڑی کمشنر ہاوس میں داخل ہوئی بھٹو نیچے اترے اور مجھے ساتھ لے کر کمرے میں چلے گئے، اور بیٹھتے ہی پوچھا "یہاں کیسے؟” میں نے بتایا تو پوچھا "کیا دیکھا؟” میں نے جوابا عرض کیا "غربت، افلاس اور انتظامیہ کی بے حسی ” کچھ لمحے وہ مجھے گھورتے رہے اور پھر سب کو کمرے سے باہر نکال کر مجھے کہنے لگے صبح پونے آٹھ بجے آ جاو اور ہم آٹھ بجے یہاں سے نکلیں گے اور تم جہاں چاہو مجھے لے کر جاؤ اور وہ سب کچھ دکھاؤلیکن کسی سے یہ بات مت کرنا تاکہ کسی کو اس پروگرام کا علم نہ ہو، میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
الطاف قریشی کے مطابق: میں نے بھٹو سے پوچھا اندھیرے میں آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا؟ جبکہ ہمیں ملے ہوئے دو سال ہو گئے تو بھٹو کہنے لگے کہ اوے تو تو مجھے جانتا ہے نا کے میں اپنے ساتھیوں کو قبر کے اندھیرے میں بھی پہچان سکتا ہوں۔ اور پھر کہا چل اب جاؤ صبح سویر آ جانا اور کسی کو علم نہیں ہونا چاہئے. میں جی سر کہتے ہوئے بھٹو صاحب سے ہاتھ ملا کر باہر آ نا چاہا تو بھٹو صاحب نے ملٹری سیکرٹری سے اس دوران کہا کہ یہ الطاف صبح پونے آٹھ بجے آئے گا اور ہم ناشتہ ایک ساتھ کریں گے۔ میں باہر نکلا تو مجھے احساس ہوا کہ میں بہت اہم آدمی ہو چکا ہوں کیونکہ ہر کوئی مجھ سے پوچھنے لگا وزیر اعظم سے کیا باتیں ہوئیں؟ نصراللہ خٹک اس وقت وزیر اعلی سرحد تھے وہ مجھے ایک طرف لے گئے اور پوچھنے لگے تو میں نے کہا کہ بس یونہی میری اور میرے بچوں کی خیر خیریت پوچھ رہے تھے وہ مطمئن نہ ہوئے، لیکن میں جان چھڑا کر ساتھ والی کوٹھی میں آ گیا جہاں میرا قیام تھا۔
الطاف کے مطابق: اگلے دن میں پونے آٹھ بجے کمشنر ہاؤس ڈیرہ پہنچ گیا، وہاں بھٹو نے مجھے اندر بلوایا وہاں وزیر اعلی، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور دوسرے تمام بڑے بڑے انتظامی افسر موجود تھے، بھٹو نے ساتھ بٹھا کر ناشتہ کیا ان کا ناشتہ جوس کا ایک گلاس، آدھا انڈہ اور ایک سلائس کے ساتھ کپ چائے تھا۔
سوا آٹھ بجے اٹھے نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس وہ ہمیں لے کر باہر نکلے اور ایک بڑی جیپ میں پیچھے بیٹھ گئے۔مجھے ڈرائیور کے ساتھ بٹھا دیا اور انہوں نے ڈرائیور کو ہدایت کی کہ وہ صرف اور صرف میری یعنی الطاف حسین کی ہدایت پر عمل کرے اور اسی طرف جائے جس طرف میں جانے کو کہوں جبکہ سکواڈ کو بھول جائے۔ لہذا میں نے سوچ کر فیصلہ کیا اور یوں ہم ٹانک کی طرف روانہ ہوگئے اب تو مجھے معلوم نہیں لیکن سن 1975 میں ڈیرہ اسماعیل خان سے ٹانک تقریبا کوئی پانچ یا سات میل دور سڑک کے دونوں طرف ایسے ریتلے میدان جیسے کوئی صحرا ہو ۔
الطاف حسین کہتے ہیں: میں نے دیکھا شہر سے تقریبا پندرہ میل دور داہنے ہاتھ، ریتلے میدان میں ایک جھونپڑی نظردکھائی دی لہذا میں نے گاڑی رکوائی اور پھر ہم سب نیچے اترے اور ریت میں چلتے ہوئے اس جھونپڑی کی طرف روانہ ہوگئے، آگے آگے بھٹو ان سے دو قدم پیچھے میں اور پھر باقی لوگ تھے۔
ہم جھونپڑی کے باہر پہنچے تو وہاں ریت پر لکڑیاں جلائے اوپر ٹین کا بڑا سا توا رکھے ایک بوڑھی خاتون روٹیاں پکا رہی تھی اس نے اتنے لوگوں کو دیکھ کر پریشانی میں چلا اٹھی ، میں نے آگے بڑھ کر اسے بتایا کہ اماں ” وزیراعظم آئے ہیں ” اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کون آیا ہے؟ میں نے پھر کہا کہ اماں ” بادشاہ بھٹو آئے ہیں "اسے پھر بھی کچھ سمجھ نہ آیا کہ کون آیا ہے؟ میں نے دوبارہ کہا کہ” اماں! بادشاہ بھٹو آئے ہیں”وہ ایک دم کھڑی ہو گئی اور بھٹو صاحب نے آگے بڑھ کر اس میلی کچیلی اماں کو گلے لگا لیا۔
الطاف کہتے ہیں کہ: میں نے وزیر اعظم بھٹو کی آنکھوں میں آنسو دیکھے، آ میڈا "بادشاہ رب تیکوں اپڑی امان اچ رکھے ” (اردو ترجمہ: آو میرے بادشاہ رب آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے) اس نے ڈیرے وال یا سرائیکی زبان میں کہا۔
بھٹو نے آس پاس دیکھا اور اماں سے سرائیکی زبان میں کہا "اماں بکھ لگی ہے،” روٹی ڈے سیں ؟ ( ماں بھوک لگی ہے، روٹی دوگی؟) اس نے جواب دیا: "ہا میڈا سائیں میڈا پتر ” ( جی ہاں میرا بیٹا) پھر اماں روتے ہوئے بھاگ کر اندر گئی اور میلی کچیلی چٹائی لائی اور وزیر اعظم بھٹو کو ریت پر بیٹھنے کو کہہ کردوبارہ اندر گئی اور ایک کالی سلور کی دیگچی اٹھا لائی اور اسے چولہے پر رکھ دیا، پھر سلور کی ہی پیالی میں ساگ نما چیز ڈالی اور "میڈے کول ایہو کجھ ہے سائیں” (میرے پاس یہی کچھ ہے) کہتے ہوئے چنگیر میں پڑی روٹی اور وہ سالن بھٹو کے آگے رکھ دیا۔
بھٹو نے اماں سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ اور کون رہتا ہے؟ اس نے بتایا کہ میرا بیٹا اور بہو اور بارہ سالہ پوتا رہتا ہے، بیٹا مزدوری کرنے ڈیرے گیا ہوا ہے، بہو پانی لینے چارکوسوں دور گئی ہوئی اور پوتا ایندھن کے لیے لکڑیاں چننے گیا ہوا۔
بھٹو صاحب نے نوالہ منہ میں ڈالا تو ان کے آنسو نکل آئے سرکاری فوٹوگرافر تصویر لینے لگا تو وزیر اعظم نے کہا ” اگر اس روٹی میں ملی ہوئی ریت کی تصویر آ سکتی ہے تو میری تصویر کھینچو”۔ انہوں نے چار پانچ نوالے لیے اور پھر گھور کر نصراللہ خٹک اور دوسرے وزراء سمیت سرکاری افسروں کو انتہائی درشتی سے کہا ” آو ذرا کھا کر دکھاؤ یہ روٹی اور پھر کہا "میرے لوگوں کو روٹی نہیں ملتی اور ملتی ہے تو صرف ریت والی لہذا تم شرم کرو، خدا کا خوف کرو آگے جا کر کیا جواب دو گے؟ ظالموں کچھ تو حیا کرو، جو آتا ہے خود کھا جاتے ہو، ارے کھاؤ لیکن کچھ تو ان کو بھی دو۔
بھٹو صاحب نے اس اماں کوایک بار پھر گلے لگایا، جیب میں جو کچھ تھا نکال کر اسے یہ کہہ کر دے دیا کہ اپنے پوتے کو میری طرف سے دے دینا اور اسے سکول بھیجو تاکہ وہ ایک دن بڑا آدمی بنے، پھر وزیر اعلی کو کچھ ہدایات دیں اور ہم لوگ وہاں سے واپس چل دیئے۔
امید ہے کہ قارئین کو بھٹو کی ایک بوڑھی ماں سے ملاقات کی یہ مختصر کہانی پسند آئی ہوگی لہذا آج بھی ہمیں ایک ایسے رہنماء کی ضرورت ہے جو غریب اور عام عوام سے دکھاوے کی ہمدردی نہ رکھتا ہو بلکہ دل سے صرف اور صرف عام عوام سے مخلص ہو.