آدم کی بیٹی.تحریر: محمد عدنان شاہد

0
89

بیٹی کا نام جب بھی زبان پر آتا ھے دل میں ایک لطیف سا محبت کا جذبہ جاگتا ھے۔اپنی بیٹی کے لیے دعا ہو یا دوسروں کی بیٹی کے لیے دعاھو یہی دعا دل سے نکلتی ھےکہ اللہ سب کی بیٹیوں کو خوش رکھے ۔یہ مہکتی کلیاں اپنے چمن کی ہوں یا دوسروں کے چمن کی پیاری لگتی ھیں دعاھے یہ سدا مہکتی رھیں۔ ماند نہ پڑیں یہ ایسے ہی چمن کی رونق بڑھاتی رھیں آمین
ایک دفعہ ایک بزرگ خاتون نے کتنی پیاری بات کہ ھم جواپنی بیٹیوں کے لیے چاھتے ھیں وہ دوسروں کی بیٹیوں کے لیے بھی چاھیں سوچ لیں کہ آج جو بوئیں گے کل وھی کاٹیں گے۔

کتنےظالم ھیں وہ لوگ جو اپنی بیٹی کےلیے پھول اوردوسروں کی بیٹی کے کانٹے پسند کرتے ھیں اپنی بیٹی کو خوشیوں سے کھیلنا دیکھناچاھتے ھیں اور دوسروں کی بیٹی کو دکھ دیتے ھیں اپنی بیٹی کے عیبوں پر پردہ ڈالتے ھیں اوردوسروں کی بیٹی کو بد نام کرنے کا کوئی موقع ھاتھ سے جانے نھیں دیتے ۔

لیکن سچ بات تویہ ھے کہ بیٹیاں تو سب کی بیٹیاں ھوتی ھیں یہ ھماری اور تمھاری نھیں ھوتیں۔
اللہ ھمیں توفیق دے کہ ھم سب کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیوں کے برابر سمجھیں اور ان کو خوش رکھیں۔آمین

یہی آدم کی بیٹی ہے
ستم کی تیز آندھی میں
خزاں آثار پیڑوں سے
بکھرتے پات کی صورت
ہوا کا ہاتھ تھامے
چل رہی ہے
کئی الزام سر لے کر
ہمیشہ خشک آنکھوں سے
جو دل اپنا بھگوتی ہے
کبھی شکوہ نہیں کرتی
وہی آدم کی بیٹی ہے
کسی انجان راستے پر
کسی ظا لم کے اشارے پر
کسی دیوار میں چنوائی جاتی ہے۔

میرے خالق نے گوندھا ہے
اسے انمول مٹی سے
مگر یہ کون جانے، کون سمجھے
یہی آدم کی بیٹی ہے۔

Leave a reply