"آدھا تیتر ،آدھا بٹیر ” — اعجازالحق عثمانی

0
96

ایک صاحب کسی ہوٹل پر تیتر کا گوشت کھانے گئے۔ کھاتے ہوئے انھے ملاوٹ کا شک ہوا تو ویٹر سے پوچھا کہ یہ خالص تیتر کا گوشت ہے؟۔ ویٹر نے کہا جی سر۔ مگر کھانے والا خود شکاری تھا اور تیتر کے گوشت سے اچھی طرح واقف تھا۔ آخر کار ویٹر نے بتا ہی دیا کہ صاحب! دیکھا دیکھی لوگ کھانے تو تیتر آتے ہیں ہمارے پاس مگر بیشتر لوگوں کو بیٹر کا ذائقہ ہی زیادہ پسند ہے ۔ سو مجبوراً مسکسینگ کرتے ہیں ۔ بات تو ٹھیک ہے ویٹر کی ہمیں مسکسینگ کی تو عادت ہو چکی ہے ۔ خالص کچھ بھی ہمیں اب اچھا نہیں لگتا۔

ہمارے گھروں میں ڈبوں والے دودھ استعمال ہوتے ہیں کیونکہ اب خالص بھینس کے دودھ سے ہمیں بو جو آتی ہے ۔ خالص گندم کی روٹی ہمارے معدے ہضم نہیں کرتے مگر نان، پیزا تو معدے میں ڈالتے ہی ہضم ہو جاتا ہے ۔

کوئی لیکوڈ ہمارے گلوں سے تب تک نہیں اترتا جب تک اس کا رنگ نیلا ، سبز ، کالا نہ ہو ، سفید لیکوڈ (دودھ) تو پینے کا ہم اب سوچ بھی نہیں سکتے ۔ اگر کوئی پیے بھی گا تو مسکسینگ کے ساتھ ، سپرائٹ ، سیون اپ کے تڑکے کے ساتھ ۔ (صرف) دودھ تو شاید اب پینڈو پیتے ہیں۔ ہم تو اب ماڈرن ہو چکے ہیں۔ اتنے ماڈرن کے گھر والے کے ساتھ سلام دعا کا وقت نہیں ، اور سمندر پار لوگوں سے چوبیس گھٹنے رابطوں میں ہیں۔

اتنے ماڈرن ہوگئے ہیں کہ ہمیں اب ماں بولی پنجابی گالی لگنے لگ گئی ہے۔ ہمارے گھروں میں اب کوئی بچہ پنجابی بول کر تو دیکھائے، صرف اردو اور انگریزی۔۔۔۔۔۔ فارسی ،عربی تو ویسے ہی ہم نے مدرسے والوں کے ذمے کر رکھی ہے۔ ہمارا کیا لینا دینا، وہ پڑھیں اور ان کا کام جانے، ہمیں کیا ۔

اور اسی انگریزی کے چکر میں ہم کہیں کے نہیں رہے۔ سیکھو بھئی انٹرنیشنل زبان ہے، مگر یہ کہاں کا قاعدہ قانون ہے کہ اپنی بالکل ہی چھوڑ دو ۔ ہم نے تو صرف چھوڑی ہی نہیں دھتکاری ہے اپنی زبان ۔ جب تک ہم انگریزی کے دو چار جملے نہ بول لیں تو ہم پڑھا لکھا ہی نہیں سمجھتے خود کو۔ کل ہی ایک دوست نے بتایا کہ اس سے اپنے گاؤں کے کسی شخص نے پوچھا کہ کونسی کلاس میں پڑھ رہے ہو۔ اس کے جواب پر فوراً انگریزی کا ایک عدد غلط جملہ اس کے منہ پر دے مارا کہ اس کا ترجمہ بتاؤ ۔ یعنی تعلیم یافتہ ہونے کےلیے ، انگریزی سند ہے تو بھئی! اس آدھی تیتر آدھی بیٹر قوم کا اللہ ہی حافظ ہے ۔

Leave a reply