جب انسان جوان ہوتا ہے تو اس وقت نوجوانوں میں قویٰ مضبوط، اور حوصلے بُلند ہوتے ہیں، ان کو سب کچھ اچھا نظر آتا ہے ان کےاندر اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی وہ دماغ سے کم اور دل سے کام لیتے ہیں ۔ وہ پہاڑوں سے ٹکرانے کے لئے پرعزم ہوتا ہے اپنی من مانی کرتے ہیں لیکن جب ان کے راستے تبدیل کیے جاتے ہیں تو ہجانی کفیت کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھراس کا رَدِعمل نظر آنے لگتا ہے جو ان کے لئے اور والدین کے لئے مسئلے کا باعث بنتا ہے نوعمروں میں ذہنی صحت کے مسائل عام سوچنے سے کہیں زیادہ عام ہیں آج کا نوجوان باغی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں دو قسم کے نوجوان موجود ہیں ایک وہ جو امیر ہیں جواپنی موج مستی میں مست، اپنی مرضی کرتے من پسند کام کوئی روکے ٹوکنے والا نہیں دُوسرا طبقہ متوسط اور غریب نوجوانوں کا ہے جو محنت سے پڑھتے ہیں اور ایک میانہ روی اختیار کرتے ہیں اور اپنی زندگی میں متوازن رکھتے لیکن کبھی ان نوجوان کے اندر باغیانہ رویّہ اُبھارنے لگتا ہے ۔ نوجوان من چاہی خواہشات ابھرنے لگتی ہیں
برہم ہوتے غصہ کرتے غلط قدم اٹھاتے ہیں اور اس کے بعد شدید اضطرابی کیفیت کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں جو ان کی زندگی میں بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں اور پھر بغاوت کی طرف چل بڑھتے ہیں اپنی کچھ ماہرِ نفسیات، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والےماہر سے پوچھا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ آج کا نوجوان باغی اس لئے اس کے پیچھے بہت سے بہت سے عوامل کار فرما ہیں اور ایسے حالات ہیں جو ان کو باغی بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
آج کے نوجوانوں یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو لگتا ہے کہ ان کو کوئی سمجھتا نہیں، نا کوئی سنتا ہے وہ سمجھتے ہیں جو وہ کہے رہے ہیں وہ ٹھیک ہے باقی جو ان کوسمجھا رہے ہیں ان کو برا سمجھنے لگتے ہیں جسے کہ وہ ان کے دشمن ہوں۔ پھران کے اندر غصّے کے جذبات اُبھارنے لگتے ہیں، بالآخر وہ بغاوت پر اُتر ہی آتے ہیں۔ اور اپنے جذباتی قدم سے اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔
نوجوان نسل معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں جو آںے والے یہ نوجوانوں ملک کامستقبل بننے ہیں نوجوان کسی بھی ملک کی معاشی، اقتصادی اور سماجی فلاح و بہبود و ترقّی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ جب نوجوان پڑھ لکھ کر نکلتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں کئی خواب ہوتے ہیں ہم یہ کرے گئے وہ کریں گے پہلا خواب تو اچھی ملازمت حاصل کرنے کا ہوتا ہے جس کے لیے وہ جگہ جگہ انٹرویو دیتے ہیں، کچھ جگہوں پر ناکامی دیکھنی پڑتی ہے جس کے باعث وہ فرسٹریشن اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر یہ کیفیت ان کو غلط صیحح کا فیصلہ نہیں کر پاتے اور باغی پن کا شکار ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کی تربیت میں والدین کے ساتھ ساتھ استاتذہ بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس عمر کے نوجوان والدین سے زیادہ اپنے استاتذہ کی سنتے اور کچھ تو اپنے استاتذہ کی عادتوں کو اپناتے ہیں اور ان کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں ۔
والدین کو چاہییے ایسے نوجوانوں پر خاص توجہ دیں ایک طریقے سے ان ہو ہیڈل کرے جتنا ہو سکے ان عمر کے نوجوانوں کے ساتھ ٹایم گذارے تاکہ ان کو ان سیکورٹی محسوس نا ہو اور اپنی بتاوں کو شئیر کرے ان کو اپنا دوست بنائے ۔
email : saima.arynews@gmail.com
Twitter Account : https://twitter.com/saimarahman6