روس اور یوکرین تنازع،عالمی جنگ کا خدشہ؟ تحریر:عفیفہ راؤ

0
29

اس وقت روس اور یوکرین تنازع کو بہت زیادہ ہوا دی جا رہی ہے انٹرنیشنل میڈیا اس پر زور و شور سے رپورٹنگ کر رہا ہے۔ روس نے جنگ سے متعلق خبروں کو بہت بار مسترد کیا ہے اور جہاں تک یوکرین کا تعلق ہے تو اس کے لئے ویسے ہی یہ ممکن نہیں کہ وہ خود سے جنگ میں پہل کر سکے۔ لیکن مغرب اور اس کے اتحادی جس زور و شور سے اس تنازعہ پر بیانات دے رہے ہیں اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روس اور یوکرین سے زیادہ دوسرے ممالک چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ جنگ چھڑ جائے اور پھر وہ اس جنگ کی آڑ میں اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو پھر یہ بات یہاں تک نہیں رکے گی بلکہ کئی دوسرے ممالک بھی تنازعوں کی لپیٹ میں آئیں گے اور یہ دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف جا سکتی ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کی اصل صورتحال کیا ہے؟
بارڈر پر فوجیوں اور اسلحہ کی تعداد بڑھانے کی وجہ کیا واقعی جنگ کی تیاری ہے؟
وہ کون سے ممالک ہیں جو یہ جنگ کروانا چاہتے ہیں؟
اس پر تو آج کی ویڈیو میں بات کریں گے ہی لیکن اگر آپ نے ابھی تک اس چینل کو سبسکرائب نہیں کیا تو ضرور کر لیں اور بیل آئیکون کو بھی ضرور پریس کیجئیے گا تاکہ آنے والی تمام ویڈیوز کا نوٹیفکینشن آپ کو بروقت ملتا رہے۔
اس وقت روس اور یوکرین تنازع کو کئی ممالک کی طرف سے بہت زیادہ اچھلا جا رہا ہے حالانکہ روس شروع دن سے کہہ رہا ہے کہ اس کا یوکرین پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اس کے علاوہ یوکرین کے صدر Volodymyr Zelenskyکا بھی کہنا ہے کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لیے حالیہ سفارتی کوششوں پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ لیکن امریکہ وہ ایک ملک ہے جوچاہتا ہے کہ یہ تنازع ختم ہونے کی بجائے کسی جنگ کی صورت اختیار کرلے امریکی صدر جو بائیڈن بار بار یہ اعلان کر رہے ہیں کہ یہ مخصوص امکان موجود ہے کہ اگلے ماہ روس یوکرین پر حملہ کرسکتا ہے۔ اور اگر روس یوکرین میں مداخلت کرتا ہے تو امریکہ اس کے اتحادی اور شراکت دار بروقت ردعمل دیں گے۔ جو بائیڈن نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا ہوا ہے کہ اگر روس نے حملہ کیا تو وہ ذاتی طور پر پیوٹن پر پابندیاں ضرور لگائیں گے۔اب اگر امریکہ کا روس کے خلاف یہ موقف ہے تو اس کا اہم اتحادی برطانیہ کیسے پیچھے رہ سکتا ہے۔ برطانوی وزرا بھی روس کو خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اس کی حکومت نے یوکرین کے خلاف کوئی جارحانہ قدم اٹھایا تو اس کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ یوکرین میں روسی فوجی مداخلت ایک بہت بڑی سٹریٹجک غلطی ہو گی جس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ روس کے انکار کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک بار بار کیوں جنگ کی باتیں کر رہے ہیں اور روس پر یہ الزام کیوں ہے کہ وہ حملہ کرنے کی تیاری میں ہے اس نے بارڈر پر نفری کی تعداد میں کیوں اضافہ کیا ہے؟ کیوں ان دو ملکوں کے تنازع کو تیسری عالمی جنگ کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے؟

اس وقت اگر روس کے بارڈر پرتعینات فوجیوں اور اسلحہ کی بات کی جائے تو سی این این کے مطابق106000 روسی فوجی تعینات ہیں ان کے علاوہ 21000 بحریہ اور فضائیہ کے اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بھی بیان دیا ہے کہ ان کو ملنے والی خفیہ اطلاعات میں یہ واضح ہے کہ60 روسی جنگی گروپ یوکرین کی سرحد پر موجود ہیں جو روس کی کل فوج کا تقریبا ایک تہائی بنتے ہیں۔جبکہ عام حالات میں یہاں صرف35000 روسی اہلکار مستقل بنیادوں پر تعینات ہوتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود روس کی جانب سے بار بار یہی اصرارکیا جارہا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کے حملے کا ارادہ نہیں رکھتا۔اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر روس کا جنگ کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو ایسی خبریں کیوں گردش کر رہی ہیں یا پھر یہ سب تیاریاں کیوں ہو رہی ہیں۔دراصل چند دن پہلے روسی وزارت دفاع نے چند تصاویر جاری کی ہیں جن میں روسی دستوں کو یوکرین کی سرحد کے قریبRoustouvکے تربیتی مرکز کی جانب گامزن دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ دستے ایسے بھی ہیں جو چار ہزار میل دور مشرقی روس سے آئے ہیں۔اور اس تمام Movement
کی وجہ یہ ہے کہ روس نے اپنے کئی ہزار فوجی مشترکہ عسکری مشقوں میں حصہ لینے کے لئے بیلا روس بھیجے ہیں۔ اور یہ سلسلہ فروری کے آخر تک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ کیونکہ 10 سے 20 فروری کے درمیان روس اپنے مزید فوجی بھی بیلا روس بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ روس نے اپنے جدید ترین لڑاکا طیارےSU- 35بھی بیلاروس بھیجنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوبائیڈن نے فروری میں روس کی جانب سے حملے کی بات کی ہے۔یہاں دو باتیں بہت اہم ہیں ایک یہ کہ یوکرین کا دارالحکومت بیلاروس کی سرحد سے سو میل سے بھی کم فاصلے پر ہے۔ اور دوسرا یہ کہ بیلاروس کے رہنما
Alexander Lukashenkoروسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے حمایتی ہیں۔ جس کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ لگ رہا ہے کہ بیلاروس کے ساتھ جنگی مشقوں کی آڑ میں دراصل روس جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔جبکہ اگر جنگی مشقوں کی بات کی جائے تو ضروری نہیں ہے کہ یہ یوکرین پر حملے کے لئے کی جا رہی ہیں کیونکہ روس تو اسی مہینے دنیا بھر میں بحری مشقیں بھی شروع کرنے والا ہے اور یہ مشقیں بھی تقریبا فروری تک ہی چلیں گی۔ ان میں140 جنگی بحری جہاز اور سپورٹ کشتیاں،60 طیارے، اور تقریبا10000 فوجی اہلکار شامل ہوں گے۔

جنگی ٹینک، افرادی قوت، اور بکتر بند گاڑیوں کو لے جانے کے قابل چھ روسی بحری جہاز انگلش چینل عبور کر کے عسکری مشقوں کے لیے بحیرہ روم جا رہے ہیں۔ جبکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ روس کے لئے یہ ایک مشکل چوائس ہے کہ وہ یوکرین پر بحری راستے سے آکر زمینی حملہ کرے۔ اس لئے جن مشقوں کو بنیاد بنا کر جنگ کی باتیں کی جا رہی ہیں ان میں کوئی حقیقت نظر نہیں آتی اور اس کے علاوہ بھی جب جنگ کرنا ہو تو فوجیوں اور اسلحے کے علاوہ بھی بہت سی تیاریاں ہوتی ہیں جو ایک ملک کوکرنا ہوتی ہیں جس کی ایک مثال موبائل فیلڈ ہسپتال بھی ہیں اور روس کی طرف سے ایسی کسی تیاری کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔دوسری جانب روس کی مشقوں اور فوجی Movementکے جواب میں امریکہ کی جانب سے چند روز پہلے یوکرین کے لیے90 ٹن کی فوجی امداد بھیجی گئی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی صدر جو بائیڈن نے دسمبر کے مہینے یوکرین کے لئے 20 کروڑ ڈالر کا سیکیورٹی امداد پیکج بھی منظورکیا تھا۔اور اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے جس طرح جنگ کا واویلہ مچایا جا رہا ہے تو آپ خود سوچ لیں کہ ایسی صورتحال میں روس اور اس کے اتحادی کیسے خاموش ہو سکتے ہیں۔اور اس وقت روس کو جو سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے وہ چین کی ہے۔اس تنازعہ کے حوالے سے چین کا موقف یہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد نیٹو کو اپنی سرد جنگ والی ذہنیت اور نظریاتی تعصبات چھوڑ کر امن اور استحکام کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کے جائز سیکیورٹی خدشات پر مکمل غور کریں۔ دشمنی اور تصادم سے گریز کیا جائے اور باہمی احترام کی بنیاد پر مشاورت کے ذریعے اختلافات اور تنازعات کو مناسب طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

اگر حالات کا مکمل ایمانداری کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے حامیوں کی جانب سے لڑائی شروع کرنے کا امکان زیادہ ہے اور اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو روس جواب دینے پر مجبور ہو جائے گا۔یہ صورتحال ویسی ہی ہے جیسی2008 کے بیجنگ اولمپکس کے دوران جارجیا میں تھی۔ روس نے اقوام متحدہ کی جانب سے اختیار کیے گئے امن معاہدے کو قبول کر لیا تھا لیکن امریکہ برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے کچھ ممالک نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔ویسے بھی سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے یہ دیکھا گیا ہے کہ روس زیادہ تر Defenderکے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس لئے مغربی ممالک کو روس پر اتنا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کہ وہ اپنے دفاع میں حملہ کرنے پر مجبور ہو جائے۔لیکن یہاں میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ امریکہ کے لئے یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے کہ وہ روس کے لئے کوئی مشکل کھڑی کر سکے کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں بھی اندرونی طور پر ناراضگیاں پائی جاتی ہیں۔
امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان اپنی سٹریٹجک ضروریات کے حوالے سے بنیادی اختلافات ہیں۔جرمنی اور امریکہ کی انتظامیہ کے درمیان بھی اختلافات موجود ہیں۔ اس لئے جب مغربی طاقتوں کے درمیان پہلے ہی اختلافات اور مختلف معاملات پر رسہ کشی ہو رہی ہے تو ایسی صورتحال میں اگر یوکرین اور روس کا تنازع بڑھا تو یقینا یہ بحران پھر صرف روس اور یوکرین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ امریکہ اور مختلف اتحادیوں کے درمیان موجود دراڑیں بھی سامنے آجائیں گی اور اس سے نئے بحران جنم لیں گے۔ اور اس وقت دفاعی طور پر جس طرح سے تمام ممالک اپنے آپ کو مضبوط کر رہے ہیں جس طرح کی ٹیکنالوجی حاصل کی جا چکی ہیں اس کے بعد یہ کوئی مشکل نہیں ہے کہ کوئی بھی تنازع کسی بھی وقت تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

Leave a reply