اونچی دکان پھیکا پکوان، تحریر: ملک علی حسن

0
66

اونچی دکان پھیکا پکوان تحریرملک علی حسن
باہر تھا اور اکیلا نہیں تھا۔ بدقسمتی سے اپنے مطابق جس اونچے اور حقیقت میں گٹھیا جس ریستوران کا انتخاب ہم نے کیا وہ شہر کا معروف ریستوران تھا۔ داخل ہوتے ہی بڑے تھڑوں کی روایات کے عین مطابق معمول کی کاروائیوں کا آغاز ہوا اور ایک صاحب نے دل موہ لینے والی مسکرہٹ سے ہمارا استقبال کیا۔ ان کے نیم گلابی ہونٹوں اور نیم پیلے دانتوں کی سکنات کے امتزاج سے پیدا ہونے والے سحر سے ابھی نکلے نہ تھے کہ انہی کے خاص اور خاصے تربیت یافتہ ایک شاگرد ہمارے ساتھ ہو لیے اور ہمیں تمام تر سامان ِ تکلفات کیساتھ سجائے جانے والے ایک میز تک چھوڑا۔ لمحات کی سوئی کچھ ہی گھومی ہو گی کہ بہت ہی با ادب اور انتہائی سلجھے ہوئے اچھے سے ایک بچے دونوں ہاتھوں میں فہرست ِ طعام لیے سلام کہنے آئے اور ہمارے جواب کا انتظار فرمانے لگے۔ ہم ان تمام کے ان عاجزانہ تکلفات کو معمول کی سرگرمی سمجھتے ہوئے معمول ہی کیطرح نظر انداز کرتے چلے گئے اور اپنے من پسند کھانوں کی ایک مختصر فہرست (وعلیکم السلام) کی درخواست کی جسے 20 منٹ انتظار کے حکم سے قبول فرمایا گیا۔ اس دوران ہم اپنے اسلام آباد سے آئے اقارب کے سامنے گوجرانوالہ کے کھانوں کے متعلق اور ان کھانوں میں پوشیدہ ذائقوں کے بارے میں اور ان ذائقوں میں مخفی افادیت کے حوالے سے اتنے ذوق سے الفاظ کے ٹرالر انڈیلنے لگے کہ وہ کھانے کے آنے اور اس پر ہاتھ صاف کرنے سے پہلے ہی اس کے پرستار ہو گئے، کھانا آنے تک مداحوں کا اس کے ساتھ سیلفی کا شوق پورے جوبن پر پہنچ چکا تھا۔ جب وہ اس ذمہ داری کو نبھانے میں مصروف ہوئے تو میں ناچیز اسی اثناء میں کھانوں کی رنگ و شکل سے محسوس کر چکا تھا کہ مہمانوں کے دماغ میں گوجرانوالہ کے کھانوں کے تصورات سے چمکتا مینار جلد اندھیر ہونے والا ہے۔ بہرحال تناول کرنے کا مظاہرہ چلا۔ نان میرے ہاتھ میں آیا تو اتنا سوکھا جتنا میرا سب سے کھڑوس دوست، چاولوں کی رنگت اتنی خراب جتنا میں خود، اور مرغ کڑاہی کی حالت اتنی ترس کے قابل جتنا ٹیکوں سے پھلایا جانے والے بریلر مرغ۔ آلوں کے قتلوں کا ذائقہ بیان کے قابل نہیں، ظاہری تصویر نے ہی گٹھیا تیل کا استعمال آئینہ کر دیا تھا۔ مہمان میرے حیا کا من و عن خیال رکھتے ہوئے خاموش ضرور تھے لیکن ان کے تاثرات مجھے چنگارتے انداز میں مکمل کہانی بیان کر رہے تھے، میں شرمندہ ضرور تھا لیکن شاید معاملے کا رخ پلٹنے کے لیے کسی اشارے کا منتظر تھا۔ اچانک سے میری بھانجی جو ہماری کل کائنات ہے اور کائنات کے مالک نے سالوں گڑگڑانے کیبعد دی ہے کو قے آنا شروع ہو گئی۔ میرا پارہ تھا کہ مہنگائی کا پیمانہ، اتنا اٹھا کہ دماغ ہی چکرا گیا۔ خود کو سنبھالا اور تحمل مزاجی سے خود پر مہمانوں سمیت بیتی کا احوال سنانے منتظم کے کمرے کا رخ کیا۔ سلامیاں پیش کرنیوالے مجاہد جناب جناب اور معذرت معذرت کے نعروں کیساتھ روکتے رہے لیکن میرے ذہن کی دیواروں پر ریستوران کے باورچی خانے کا ایک نقشہ ابھر چکا تھا جس پر تصدیقی مہر ثبت کرنے میں اندر جانے کی اجازت کا طلبگار تھا۔ منتظم کے کمرے میں بات گھی تک آئی تو خود کو صوفی ظاہر کرنے کی نیت سے فرمانے لگے ہم پاکستان کے مشہور تجارتی نام "صوفی” کا استعمال کرتے ہیں۔ کھانے سے اٹھنے والی بدبو اور تیل کے نام میں مجھے ایک رنگ محسوس نہ ہوا تو میں نے موجود تیل ظاہر کرنے کا کہا، اس پر ایسی آئیں بائیں شروع ہوئی کہ ایک موقع پر میں انہیں درست اور خود کو غلط تصور کرنے لگا۔باقی عملے کیجانب سے معذرتوں کا متواتر سلسلہ تھا لیکن منتظم کی گردن میں کوئی مصنوعی سریا۔ مفاہمتی رویہ کے نتیجے میں اجازت لیکر کچن میں موجود تیل تک پہنچا تو انتہائی گٹھیا اور غیر معروف نام کا تھا، جو نہ تو کبھی میں نے سنا نہ میرے قارئین نے چکھا ہو گا۔ بچی اور تمام عزیزان کی طبعیت بگڑ چکی تھی اور منتظم کا نامناسب رویہ اور ثابت شدہ جھوٹ بھی شامل ِ منظر نامہ ہو چکا تھا۔ میں نے صورتحال سے قانونی طریقے سے نمٹنے کا فیصلہ کیا، پہلا رابطہ کرنے کے لیے رابطے کا آلہ اٹھایا ہی تھا کہ ان سب کا گرو جسے منتظم پکارا جا رہا ہے ڈھٹائی پر اتر آیا اور "جو کرنا ہے کر لو” کہ کر کھلے میدان میں کھیلنے کا چیلنج دے دیا۔ چوری اور مسلسل سینہ ذوری سے میرا پارہ مزید چڑھ گیا اور آواز بھی باوجود سمیٹنے کی کوشش کے اپنی چادر سے باہر تکنے لگی۔اس کی جانب سے مسلسل بدتمیزی کی وجہ سے میرا دماغ اس کے ساتھ تھانے میں جانے پر رضامند ہو چکا تھا۔ پولیس کے ایک دوست اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ایک آفیسر سے رابطہ کیا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی والوں نے ریستوران کے نمبر پر رابطہ کر کے تفشیش کے آغاز کی خبر دی، میرے ساتھ موجود میرے ساتھیوں نے مجھ کمزور، عاجز اور انتہائی کم علم و عقل کا کچھ سچا اور کچھ جھوٹا تعارف کروایا تو منتظم کا غصہ ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ یہ وہ موقع تھا جب روایتی معافیوں اور منتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور صفائیاں پیش کیجانے لگی، میں نے بھی ان کے چہروں پر عیاں نوکریاں جانے کا خوف پڑھ لیا اور افہام و تفہیم سے معاملہ سلجھانے کا فیصلہ کیا۔ دفتر میں بیٹھے اور لمبے مذاکرات کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ عوام کی جان سے کھلواڑ کرنے والے ناقص گھی، بے ذائقہ کھانا بنانے والے شیف اور باسی اشیاء محفوظ کرنے والے یخ بند کو فوری فارغ کیا جائے گا اور تمام تر اصلاحات پر فوری عمل درآمد کیبعد آگاہ کیا جائے گا اور سلامیاں پیش کرنے اور مسکراہٹوں کے قالین بچھانے والے تربیت یافتہ مجاہدوں کی آڑ میں صحت سے گھناؤنا کھیل کھیلنے کا یہ سلسلہ بند کیا جائے گا۔ باہر نکلتے مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوچکا تھا کہ ریستوران کے گاہک کے ساتھ اپنے عاجزانہ تکلفات کی بڑی وجہ اس کی آڑ میں کھانے کے معیار پر سمجھوتا بھی ہے جو ہم آسانی سے کر لیتے ہیں۔ دوستوں سے گزارش ہے بڑے ناموں کا لطف ضرور لیں لیکن کہیں بھی صحت پر سمجھوتہ ہوتا نظر آئے تو بجائے ڈرنے کے اس کو روکنے میں کردار ادا کرنے کی کوشش کریں۔ کہیں دقت پیش آئے تو آپکا بھائی آپکا خادم ہے۔

Leave a reply