جماعۃالدعوۃ پاکستان کے مرکزی رہنما پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کمیٹی 1267 کے طرف سے اپنا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیے جانے کی شدید مذمت کی ہے اور اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں دی گئی معلومات کو سراسرحقائق کے منافی قرار دیا ہے۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہاکہ میں نے اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں کبھی تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ ہی ایک دن کے لیے بھی وہاں بطور معلم ملازمت اختیار کی ہے۔ میری القاعدہ کے ایمن الظواہری، اسامہ بن لادن یا عبداللہ عزام سے بھی کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی میرا ان سے کسی قسم کا رابطہ رہا ہے ۔ اسی طرح میں نے اسلامی سیاست میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل نہیں کی بلکہ سعودی عرب کی ام القریٰ یونیورسٹی میں علم حدیث میں ڈاکٹریٹ کیا ہے۔بی بی سی کی رپورٹ میں لکھی گئی یہ ساری باتیں غلط ہیں اور بی بی سی جیسے ادارے کی طرف سے اپنی رپورٹ میں ایسی باتیں شائع کرنے سے میرے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔
عبدالرحمن مکی نے کہاکہ دہشت گردی کے حوالے سے میراموقف شروع دن سے بالکل واضح ہے اورمیں نے اپنی پوری زندگی میں ان تینوں شخصیات کے نظریات کی کبھی حمایت نہیں کی ۔انہوں نے کہاکہ یواین کی سلامتی کمیٹی کی طرف سے میرا موقف سنے بغیر محض بھارت سرکار کے پروپیگنڈے پر دہشت گردوں کی فہرست میں نام شامل کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ہم یواین کی سلامتی کمیٹی کے اس فیصلے کے خلاف ڈی لسٹنگ کے لیے جلد اپیل دائر کریں گے۔ سلامتی کمیٹی کو چاہیے کہ وہ انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور اس حوالے سے ہمارا موقف بھی سنا جانا چاہیے تاکہ صحیح حقائق دنیا پر واضح ہو سکیں۔انہوںنے کہاکہ بھارت اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے جھوٹ پر مبنی معلوما ت کی بنیاد پر عالمی اداروں کو گمراہ کر رہا ہے۔ میرا القاعدہ یا داعش جیسی کسی تنظیم سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ۔جہاں تک کشمیر کی بات ہے تو ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مظلوم کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔یہ پاکستان کا قومی ایشو ہے اور ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دیا جائے۔