قاہرہ: سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جان لیا کہ آخر ساڑھے 4 ہزار سال پہلے ابو الہول کی تعمیر کیسے ممکن ہوئی-
باغی ٹی وی: صدیوں پرانے گیزہ کے عظیم ہرم کے ساتھ ساتھ ابو الہول کا مجسمہ عرصے سے سائنسدانوں کے لیے معمہ بنا ہوا ہے جو اب تک یہ سمجھ نہیں سکے تھے کہ ہزاروں سال قبل 20 میٹر اتنا بڑا مجسمہ کیسے تعمیر کیا گیا-
اب سائنسدانوں نے اس حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جان لیا کہ آخر ساڑھے 4 ہزار سال پہلے ابو الہول کی تعمیر کیسے ممکن ہوئی دہائیوں سے ماہرین اس خیال پر متفق تھے کہ ابو الہول کے اس مجسمے کا چہرہ پتھروں کے اوزاروں سے تراشا گیا تھا، مگر وہ یہ سمجھ نہیں سکے تھے کہ اس کا اتنا بڑا جسم کیسے تیار کیا گیا۔
بابا وانگا کی سال 2024 کے حوالے سے 7 پیشگوئیاں
نیویارک یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں اس کا ممکنہ جواب دیا گیا تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسا صحرا میں صدیوں سے تیز ہواؤں کا سامنا کرنے سے چٹان میں آنے والی تبدیلیوں سے ممکن ہوا لیبارٹری تجربات سے ثابت ہوا کہ ہوا کے تیز بہاؤ سے چٹانوں میں ابو الہول جیسی ساخت کا بننا ممکن ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ عظیم مجسمہ مکمل طور پر قدرت نے تراشا ہے بلکہ چٹان میں آنے والی تبدیلیوں کو قدیم مصریوں نے مجسمے کی شکل دی۔
اس تحقیق کے لیےمحققین نے چونے پر مبنی ماڈل چٹانیں تیار کیں اور انہیں پانی کی تیز دھار سے دھویا ابو الہول کے مجسمے میں موجود اجزا کا خیال رکھتے ہوئے ان ماڈلز کے لیے نرم چونے کو استعمال کیا گیا اور پانی کے بہاؤ سے ان ماڈلز میں شیر جیسی ساخت بننا شروع ہوگئی، صحرا کے اندر تیز ہواؤں کے باعث اس طرح کی چٹانوں میں قدرتی طور پر کسی جانور کے بیٹھے یا لیٹے ہونے جیسی شکل بن جاتی ہے۔
طویل القامت پاکستانی غلام شبیر جدہ میں انتقال کرگئے
1981 میں ایک ماہر ارضیات فاروق الباز نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ابو الہول کے مسجمے کی تعمیر میں تیز ہواؤں نے اہم کردار ادا کیا تھااب نئی تحقیق کے نتائج سے اس خیال کو تقویت ملی ہے محققین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ابو الہول جیسے اسٹرکچر اس طرح کے حالات میں تشکیل پا سکتے ہیں. مگر انہوں نے تسلیم کیا کہ ابھی بھی اس سوال کا جواب نہیں معلوم ہوسکا کہ مجسمے کا کتنا حصہ قدرتی ہے اور کتنا حصہ انسانوں کا تیار کردہ ہے؛ ہماری تحقیق میں یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ سر، گردن اور پنجے کا بیشتر حصہ قدرت کا تراشا ہوا ہے۔