بغداد:دنیائے عرب اپنے دو مشہور کمانڈروں کو کبھی بھی بھول نہیںپائے گی ،ایک اسامہ بن لادن اور دوسرے ابوبکرالبغدادی ، امریکہ کے بقول ابوبکر البغدادی امریکی مشن میں مارا گیا ،البغدادی ، جس کا اصل نام ابراہیم اود ابراہیم علی البدری ہے اوروہ بعض اوقات ابو اود یا ابو دعابھی کہلاتا ہے۔ اسے اس کے آبائی علاقے میں کچھ مختلف انداز میں جانا جاتا ہے۔
ڈاکٹرعمید القسیم جو تاریخ عرب کے ایک ابھرتے ہوئے ستارے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بغدادی کے ایک سابق ہمسائے طارق حمید کے مطابق، وہ علاقے میں اپنی خاموشی کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہ ایک پرامن آدمی تھا جو کبھی زیادہ بات چیت نہیں کرتا تھا۔اپنی جوانی کے عالم میں وہ ایک صاحب فکر، نیک اور پرسکون انسان تھا۔ وہ اپنی ذات میں مست رہنے والا شخص تھااور اس کے زیادہ دوست بھی نہیں تھے۔
ابراہیم اود ابراہیم علی البدری کا ہمسایہ حمیدیاد کرتا ہے کہ ایامِ جوانی میں وہ موٹر سائیکل دوڑایا کرتا تھا۔ عراقی مردانہ چغہ پہنا کرتا تھا۔عباہ پہنا کرتا تھااور اپنے سر پر ایک چھوٹی سی سفید ٹوپی لیا کرتا تھا۔ اس کے موٹر سائیکل کے پیچھے ہمیشہ مذہبی یا کسی اور نوع کی کتب بندھی ہوتیں۔ حمید مزید بتاتا ہے کہ اس نے اسے کبھی ٹراؤزر شرٹ وغیرہ میں نہ دیکھا تھا، جیسا کہ سمارا کے دیگر لڑکے ایسے لباس اکثر پہنتے ہیں۔اس کی چھوٹی چھوٹی ڈاڑھی تھی۔وہ کبھی کیفے وغیرہ میں نہ جاتا تھا۔اس کا مسجد میں ایک چھوٹا سا حلقہ احباب تھا۔
ابراہیم اود ابراہیم علی البدری وہ سمارا میں 1971ء میں پیدا ہوا تھا۔البغدادی کا ضلع الجبریہ تھا۔ ابو بدری اور ابو بعض کے زیریں درجے کے مڈل کلاس قبائل اس کے پڑوس میں آباد ہیں۔2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد یہ سارا علاقہ بے پناہ امریکی بمباری سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔ امریکہ کا دعویٰ تھا کہ وہ جنگجوؤں کوجڑ سے اکھاڑنے کیلئے ایسا کر رہا ہے۔
مسجد کے باہر فائرنگ سے 2 افراد زخمی
البغدادی کا خاندان زیادہ امیر نہ تھا۔تاہم اس کے دو چچا صدام کی سکیورٹی فورسز کا حصہ تھے۔اس کا مطلب تھا کہ بہرحال ان کا کوئی سماجی مرتبہ اور کچھ نہ کچھ اہم سماجی روابط موجود تھے۔ان روابط نے معاشرے میں البغدادی کے خاندان کا ایک خوف یا احترام بہرحال پیدا کر رکھا تھا۔اس کے خاندان کو جاننے والے، اسی علاقے کے ایک مترجم کا کہنا ہے کہ ’’وہ اپنی ذات میں بے انتہاء کھویا رہنے والا آدمی تھا۔‘‘
البغدادی اہل تشیع کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک امام حسن العسکری کے مزار سے محض ایک میل کے فاصلے پر جوان ہوا تھا۔تاہم، یہ مزار، سنیوں کا بھی مقدس مقام ہے۔ داعش کی پراپیگنڈا مشین کے مطابق، ایمان نے البغدادی کی ابتدائی زندگی میں ایک بڑا کردار ادا کیا۔ سمارا کے ایک اور رہائشی یاسر فہمی کے بقول، بغدادی نے بنیادی طور پراپنا بچپن مذہبی دروس حاصل کرتے ہوئے گزارا۔ابراہیم اپنے خاندان کے زیادہ تر لوگوں کی طرح، ایک پکا مسلمان تھا۔
طوفانی بارشوں سے تباہی،7 افراد ہلاک
ڈاکٹرعمید القسیم جو تاریخ عرب کے ایک ابھرتے ہوئے ستارے ہیں وہ کہتے ہیں کہ البغدادی کے ظلم و ستم کی بنیادیں، صدام کا تختہ الٹنے کی خاطرکئے گئے امریکی حملےکے نتیجے میں بہنے والے خون سے جاملتی ہیں۔ امریکی افواج9اپریل 2003کو بغداد کے وسط میں اتریں۔ اس کے فوراً بعد ملک میں انارکی پھیل گئی۔ صدام اور اس کے ساتھیوں میں سے کچھ اسی سنی تکون میں آ کر چھپ گئے اور باقی شام فرار ہو گئے۔
مصنوعی کیلشئیم ۔ خون کی شریانوں کے امراض کا خطرہ
سنی جنگجو جو وہاں موجود تھے انہون نے امریکی فوجیوں پر خود کش حملے شروع کر دئیے۔یہی وہ زمانہ تھا کہ جب البغدادی نے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا اور جماعت جیش اہل السنہ والجماعہ قائم کی۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت اور اختیار کے لالچ نے اس کی تنظیم کو ایک دہشتگرد تنظیم کے سوا اور کچھ رہنے نہ دیا اور وہ بیرونی حملہ آوروں کی بجائے اپنے ہی اہل مملکت کے خلاف برسرپیکار ہو گیا۔







