ابو الکلام آزاد و حسین احمد مدنی کا بہکاو ہ اور ہندوستانی مسلمان
تحریر :عبدالکبیر ندوی

ابو الکلام آزاد اور حسین احمد مدنی کے بہکاوے میں آکر ہند کے مسلمانوں نے بہت گھاٹے کا سودا کیا تھا،
جناح دور اندیش تھا لیکن مذہبی ٹھیکیداروں نے مسلمانوں کو آسانی سے بیوقوف بنایا اور اپنے چند عہدوں کی خوش فہمی میں کروڑوں مسلمانوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیا۔۔۔

ہم حالات سے گھبراتے نہیں ہیں، اور مایوسی کو کفر سمجھتے ہیں، لیکن حالات کا تجزیہ اور اسباب کا ادراک اور اُسکے ذمےداروں کو آئنہ دیکھانا یہ سب ضروری ہے، تقسیم کے 70 نہیں اگر 700 سال بھی ہونگے تو الزام اُنہی پر جائےگا، کیونکہ مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ وہیں سے ہوا تھا، یہ حقیقت ہے کہ مسلمان کبھی بھی مشرک کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتا، پھر مشرکوں کے ماتحت آخر کیونکر سکون کی زندگی بسر کر سکتا تھا، اور تقسیم کے وقت ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کرنے والوں نے مشرکوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ مشرکوں کی ماتحتی میں گزارا کرنے کی ٹھانی تھی،
پھر وہاں کوئی اسلامی مصلحت انکے پیشِ نظر نہیں تھی بلکہ ملک کی بنیاد پر قومی نظریہ، ہندو مسلم بھائیچارا، گنگا جمنا تہذیب جیسے بےبنیاد اور باطل تصورات تھے، کیونکہ انکو چند عہدے اور تھوڑی سی پاور کا گمان تھا جو اس وقت انکو حاصل تھی، جسے شاید وہ لازوال گمان کر رہے تھے،

پہلے مسلمان ہندوستان میں سرکاری عہدوں میں 37 فیصد کے قریب تھا آج 5 فیصد بھی نہیں ہے، کاروبار کا کوئی ایک شعبہ بھی مسلمانوں کے پاس مخصوص نہیں ہے، گوشت کا کچھ کام تھا جو اب وہ بھی چھین لیا گیا ہے، اور بڑی بڑی فیکٹریاں ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہی ہیں، لکڑی کے کاروبار میں نچلا کام مسلمانوں کے پاس تھا جو اب نہیں رہا، گجرات کے علاقوں میں کپڑے کا کام تھا جو ختم سا ہو چکا ہے، اور انکی اجارادری ہندو سیٹھوں کے پاس ہے، مسلمان مزدور رہ گیا ہے، اور ایسا بہت سارا ڈیٹا آپکو نیٹ پر مل جائےگا اپنی کئی تقریر میں اسد الدین اویسی نے اسکو بیان بھی کیا ہے، باقی آپ سچر کمیٹی کی آفیشیل رپورٹ دیکھ سکتے ہیں، اس سب کے علاوہ مسلمانوں کو گائے کے نام پر جان سے مار دینا، آتانکواد کے جھوٹے الزام میں جیلوں میں بھر دینا، مذہب کے نام پر منظم دنگے کرکے ہزاروں مسلمانوں کو مارنا اور لاکھوں کو لوٹ مار کر بےگھر کر دینا سورج کی طرح عیاں ہے، داڑھی کی وجہ سے کالج سے نکال دینا، پردہ کی وجہ سے ماں بہنوں کی توہین کرنا آئے دن کی خبر ہے، اسکے علاوہ مختلف طرح سے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے،
ہندوستان میں مسلمانوں نے کوئی اپنی سیاسی طاقت کھڑی نہیں کی کیونکہ مسلمانوں کی سیاسی نکیل یہاں جمیعت کے ہاتھوں میں تھی اور جمیعت نے کانگریس پر اُسکی اوقات سے زیادہ بھروسہ کیا اور مسلمانوں کو اُسکا خریدا ہوا غلام بنا دیا کہ اُسکے سوا کوئی راستہ نہیں، اور اگر کوئی چھوٹی موٹی تنظیم اٹھی تو وہ جمیعت کی سیاست کا شکار ہو گئی، جس میں ڈاکٹر ایوبی، مولانا عامر رشادی سے لیکر اسد اویسی جیسے کتنے ہی نام ہیں جن میں کچھ کو ناپید کر دیا گیا کچھ کی مخالفت جاری ہے، اور مذہبی نکیل دار العلوم دیوبند کے ہاتھوں میں رہی جس نے ہند میں مذہبی اعتبار سے نمایاں کردار تو ادا کیا لیکن یہاں بھی بریلویوں کو مشرک، اہل حدیث کو گمراہ، جماعت اسلامی کو گستاخ ثابت کرنے میں سارا زور دیا گیا، مغربی تہذیب اور دنیاوی علوم پر کوئی فتویٰ نہیں لگایا گیا بلکہ اسکو دجال سمجھ کر اُسکے فتنے سے پناہ مانگی گئی، اور لوگوں کو اس سے بعض رہنے کی تلقین کی گئی،
اب اگر ڈٹین سینٹرز میں رکھا جاتا ہے تو اسکا ذمےدار کون ہوگا ؟
اقتدار پر بیٹھی ہندو طاقت جو کچھ کر رہی ہے قانون کی روشنی میں کر رہی ہے، ہندوستان جمہوری ملک ہے یہاں کا نظام وہی جمہوری نظام ہے جس پر ہمارے اجداد نے بھروسہ جتلایا تھا، بی جے پی جو بھی قانون پاس کر رہی ہے جمہوری طریقے پر کر رہی ہے، پارلیمنٹ میں انکی جمہوریت ہے جسکی بنیاد پر تین طلاق کا بل پاس ہوا اور اب یہ بھی ہو جائےگا، کیونکہ وہ اپنے حق میں جمہوریت کو ثابت کر دیتی ہے، آپ کتنا بھی چیخیۓ چلائیے قانون کا حوالہ دیجیئے، ملک کا نظام جمہوری ہے، جمہوریت ثابت ہوتی ہے تو قانون کی کوئی بھی شق بدلی جا سکتی ہے یہ خود قانون کا حصہ ہے، اسلئے حالات کے اسباب کا تدارک کرنا ضروری ہے کہ ہمارے آباء و اجداد نے جس جمہوریت کو سمجھنے میں غلطی کی تھی اب اُسکا اصلی روپ سامنے آ گیا ہے، لہٰذا اب قانون، ملک، سیکولرزم اور ڈیموکریسی کا حوالہ دینا چھوڑیئے، اپنے اسلاف کی غلطی سے مجموعی توبہ کیجیئے، خدا کے دربار میں حاضر ہوکر باطل نظام سے برات کا اظہار کیجیئے، اور اسلامی اخوت کی بنیاد پر، ظلم کی عدم برداشت کی بنیاد پر، انسانیت کی بنیاد پر انقلاب کی آواز بلند کیجیئے، آپ اس سیکولرزم کو بچانے، ملک کو بچانے کا نعرہ دیکر چند ہندوؤں اور ملحدوں اور اسکالرز کو اپنے ساتھ ضرور لے سکتے ہو لیکن یقین جانیے آپ وہی غلطی دہرائینگے جو اسلاف نے کی تھی، یہ پھسپھسے سہارے ہیں جنہیں ایک دن ٹوٹ جانا ہے، اور خدا کا سہارا ہی باقی رہنے والا ہے اور وہی مضبوط اور طاقتور سہارا ہے، لہٰذا اپنی کوششوں کا رخ صحیح کیجیئے، اور اپنے حصے کی لڑائی خود لڑیئے اور نتیجہ اللہ کے سپرد کیجیئے،

Shares: